Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں مقیم پاکستانی کون کون سی اشیا وہاں لے جا کر بیچ سکتے ہیں؟

پنک سالٹ کی سعودی عرب میں بہت مانگ ہے (فوٹو: ہیلتھ وائر)
خیبرپختونخوا کے شہر صوابی سے تعلق رکھنے والے عبدالباسط خان گزشتہ 18 برس سے سعودی عرب میں مقیم ہیں۔ انہوں نے ایم بی اے کر رکھا ہے اور سعودی عرب کی مشہور سپرمارکیٹ کی کمپنی میں بطور مینیجر کام کرتے ہیں۔
ایک بار وہ پاکستان سے گلابی نمک ’پنک سالٹ‘ کے کچھ نمونے لے کر گئے۔ مناسب قیمت اور اچھی کوالٹی  کے باعث سعودی مارکیٹ میں انہیں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور پھر آرڈرز بھی فوراً ملنا شروع ہو گئے۔
اس کے بعد انہوں نے باقاعدہ طور پر پاکستان سے برآمدات کا کام شروع کیا۔ سعودی عرب میں پنک سالٹ کے علاوہ  چاول، مصالحہ جات سمیت مختلف کھانے پینے کی اشیا فروخت کرنا شروع کیں۔
پچھلے برس انہوں نے آن لائن فروخت  کا آغاز بھی  کیا۔ پاکستان میں موجود ان کے بیٹے نے اس مقصد کے لیے ویب سائٹ بنائی اور اب وہ ریاض سمیت سعودی مختلف شہروں میں آرڈرز سپلائی کر رہے ہیں۔
ان کے بقول ’یہاں کھاد وغیرہ سے پاک کاشت (آرگینک ) فوڈز کی بھی خاصی ڈیمانڈ ہے۔ ان کے مطابق پاکستان سے مختلف اشیا ایکسپورٹ کر کے سعودی مارکیٹ میں فروخت کرتے ہوئے انہیں تیسرا سال ہے۔‘
انہیں اس بات کی خوشی ہے کہ وہ پاکستانی برآمدات میں ایک قطرے جتنا ہی سہی مگر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔

سعودی مارکیٹ میں کن  پاکستانی اشیا کی زیادہ طلب ہے؟


پاکستان سے فرنیچر بھی سعودی عرب برآمد کروایا جا سکتا ہے (فوٹو: بزنس ریکارڈر)

عبدالباسط کہتے ہیں کہ چاول، گوشت، سبزیاں، پھل، گلابی وسمندری نمک، مصالحہ جات، شہد، گڑ، اسپغول اور خشک میوہ جات کی ڈیمانڈ ہے۔
اس کے علاوہ کھیلوں کا سامان اور کپڑے وغیرہ بھی یہاں برآمد کیے جا سکتے ہیں۔ ریاض میں پاکستانی سفارت خانے کے وزیر تجارت و سرمایہ کاری اظہر ڈاہر اس حوالے سے کہتے ہیں کہ سعودی عرب میں حلال فوڈز سمیت لکڑی، فرنیچر، پنکھے، ماربل ،سٹیل اور شیشے وغیرہ سے بنی اشیا کی بڑے پیمانے پر ڈیمانڈ ہے۔ گزشتہ برس میں پاکستانی ٹیکسٹائل کی برآمدات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

سعود ی ویژن 2030  کی پاکستانی برآمدات میں اضافے کے لیے افادیت

سعودی ویژن 2030 کے حوالے سے اظہر ڈاہر کہتے ہیں کہ یہ پاکستانی برآمد کنندگان کے لیے ایک  بڑا موقع ہے۔ برآمدات میں اضافے کے لیے پاکستانی سرمایہ کاروں کو مارکیٹنگ کے جدید ذرائع استعمال کرنا ہوں گے۔
ان کے مطابق ’سعودی عرب میں باقی ممالک کے سرمایہ کاروں نے اپنی کمپنیاں اور دفاتر قائم کیے ہیں۔ دیگر ممالک سے برآمد کرنے والی کمپنیوں نے یہاں کی سپر مارکیٹس میں اپنی مستقل جگہ بنائی ہے۔‘
’سعودی عرب کی درآمدات میں پاکستانی حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے، جس کی وجہ صرف یہ ہے کہ ابھی تک پاکستانی سرمایہ کار سعودی مارکیٹ تک پہنچے ہی نہیں۔‘

چاول اور دوسری کھانے پینے کی چیزیں بھی سعودی عرب لے جائی جا سکتی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ان شعبوں میں ہمیں ان کا مقابلہ کرنا ہے تو یہاں اپنی کمپنیاں قائم کرنا ہوں گی۔ یا دوسری صورت میں سعودی کمپنیوں سے جوائنٹ وینچرکرنا ہوگا تاکہ مارکیٹنگ اور پھر سیلز میں اضافہ ہو سکے۔‘  
 پاکستان سے برآمد کے حوالے سے عبدالباسط خان کا کہنا ہے کہ اس کے لیے سی آئی ایف سروسز دینے والی کمپنیاں سعودی عرب تک برآمدات کا سامان پہنچا دیتی ہیں۔ جہاں سے آگے سامان منگوانے والے کے ایجنٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ  کسٹم وغیرہ کے تمام معاملات مکمل کر کے سامان مارکیٹ یا متعلقہ جگہ پر پہنچائے۔
ان کا کہنا تھا کہ خوراک سے متعلق اشیا کے لیے سعودی فوڈ اتھارٹی سے رجسٹریشن کرانا ہوتی ہے۔
ان کے مطابق اس برس تو پھلوں کا سیزن ختم ہو گیا ہے لیکن وہ اگلے برس سے پاکستانی پھلوں کی بھی سعودی مارکیٹ میں برآمد شروع کریں گے۔
برآمدات کے دوران کی جانے والی بڑی غلطیاں
برآمدات میں مسائل کے حوالے سے باسط کہتے ہیں کہ ’ہمارے لوگ ایک ہی بار میں امیر ہونا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ پہلی بار تو اچھی اشیا بھیج دیتے ہیں مگر پھر کوالٹی کا خیال نہیں رکھتے۔ اگر ہم برآمد کرتے ہوئے کوالٹی کنٹرول نہیں کریں گے تو کوئی دوسری بار آرڈر کیوں دے گا؟‘ 

شیئر: