1971 سے اب تک بیرون ملک ملازمت کے لیے جانے والے پاکستانی ورکرز میں سے 50 فیصد سے زائد نے سعودی عرب کا رخ کیا ہے، جبکہ گزشتہ چار برس میں یہ شرح بڑھ کر 60 فیصد ہو چکی ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت بھی پاکستانی ورکرز کے لیے دستیاب ملازمتوں میں سے 80 فیصد سعودی عرب میں موجود ہیں۔ جن میں ایک عام مزدور سے لے کر ہائی ٹیک شعبوں میں مہارت یافتہ ورکرز کی طلب شامل ہے۔
اردو نیوز کا فیس پیج لائک کریں
وزارت سمندر پار پاکستانیز کے ذیلی ادارے بیورو آف امیگریشن کے مطابق گزشتہ چند ماہ میں بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے تین لاکھ سے زائد ملازمتوں کے مواقع دستیاب ہوئے۔ ان میں سے ایک لاکھ 75 ہزار سے زائد ملازمتوں سے استفادہ کیا گیا، جبکہ ایک لاکھ 30 ہزار پر بھرتیوں کا عمل جاری ہے۔
مزید پڑھیں
-
ویزا قصیم کا جبکہ کام کہیں اور، اقامہ اسی شہر سے بن سکتا ہے؟Node ID: 713861
-
2022 میں سعودی معیشت 8.3 فیصد بڑھنے کی توقع: عالمی بینکNode ID: 713871
-
عمرہ ویزے پر آنے والے کن سعودی شہروں کا سفر کر سکتے ہیں؟Node ID: 713876
حکام کے مطابق ہر دوسرے ہفتے بیرون ملازمتوں کے مواقع پیدا ہو رہے ہیں، ان میں سے 80 فیصد سعودی عرب میں ہیں۔
سعودی عرب میں ملازمتوں کے حوالے سے ایک اور اہم بات مہارت کی تصدیق کا پروگرام بھی ہے جس کے لیے پائلٹ پروجیکٹ مکمل کر لیا گیا ہے، جبکہ دوسرے مرحلے میں ورکرز کی مہارت کی تصدیق کے لیے اداروں کا انتخاب مکمل کرنے کے بعد رجسٹریشن کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ جلد ہی ورکرز کی مہارت کے باضابطہ سرٹیفکیٹ کا اجراء بھی کر دیا جائے گا۔
اس پروگرام کے تحت ابتدائی طور 23 شعبوں میں مختلف سطح کے تصدیقی سرٹیفکیٹ جاری کیے جائیں گے۔
حکام کے مطابق اس وقت مزدور، الیکٹریشن، ہیوی مشینری مکینک، انجینیئرز، ڈرائیروزم سٹیل فکسرز، درزی، پیکنگ ایکسپرٹس، موٹر مکینک، پلمبر، پروجیکٹ مینجرز اور رنگساز سمیت درجنوں شعبوں میں ورکرز کے لیے ملازمتوں کے مواقع موجود ہیں۔ ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف کے لیے الگ سے بھرتیاں جاری ہیں۔
اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر عنایت الرحمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ اس وقت دنیا بھر بالخصوص خلیجی ممالک میں جتنی بھی ملازمتیں نکل رہی ہیں ان میں بڑا حصہ سعودی عرب کا ہے۔ کورونا وبا کے بعد سعودی عرب نے ہر شعبے میں بھرتیاں شروع کر رکھی ہیں۔
’ہمارے پاس 600 ریال سے پانچ ہزار ریال تک کی ملازمتیں دستیاب ہیں، جبکہ بعض شعبوں میں اس سے بھی زیادہ تنخواہیں ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ سعودی عرب میں آجر اور اجیر کے درمیان ملازمت کے کنٹریکٹ کے حوالے سے قوانین میں تبدیلیوں کے بعد ورکرز کے لیے کافی آسانیاں پیدا ہوئی ہیں اس لیے پاکستانی ورکرز بھی خلیجی ممالک میں سے سعودی عرب جانے کو ہی ترجیح دیتے ہیں۔
