معاملہ سلجھانا وزیراعظم کی عقلمندی ہے، اسے انکی کمزوری بھی کہہ سکتے ہیں لیکن دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے
* * * * صلاح الدین حیدر* * * *
جمہوریت اور سیاست کہنے کو 2 علیحدہ عوامل ہیں لیکن ہیں اصل میں ایک ہی۔ سیاست کے بغیر جمہوریت بے معنی اور جمہوریت سیاست کے بغیر پنپنے کا سوچ بھی نہیں سکتی، لازم و ملزوم ہیں دونوں۔ ہاں ایک بات جس کا پاکستان میں بڑی شدومد سے تذکرہ اور اُس پر بحث ہوتی رہتی ہے، وہ موروثی سیاست ہے لیکن صرف پاکستان کو ہی کیوں الزام دیا جائے؟ ملائیشیا میں جمہوریت ہے، پارلیمنٹ ہے، انتخابات باقاعدگی سے ہوتے ہیں لیکن بادشاہت بھی تو قائم ہے۔ ملائیشیا کی ریاستوں میں علیحدہ علیحدہ حکمراں ہوتے ہیں جنہیں شاہی طرز کا پروٹوکول میسر ہے، ان میں سے ہر ایک 4 سال کے لئے باری باری ملک کا بادشاہ بنتا ہے۔ دُور کیوں جائیے… انگلستان کی ہی مثال لے لیں… دُنیا کی سب سے مقبول اور قدیم ترین (قریباً 800 سال پرانی) جمہوریت ہے، لاکھ خامیاں سہی، پھر بھی اپنے زرّیں اصولوں پر قائم دائم۔
پارلیمنٹ ہے، انتخابات وقت مقررہ پر ہوتے ہیں، کبھی کبھی درمیانی مدت میں بھی ہوجاتے ہیں، آزاد پریس ہے، اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے، برطانیہ واحد ملک ہے دُنیا کا جس کا کوئی تحریری آئین نہیں پھر بھی اصول، روایات اور قانون کی حکمرانی ہے اور وہ بھی بے مثال۔ انگلستان کی پارلیمنٹ دُنیا کے تمام آزاد ملکوں کی Mother parliament یعنی پارلیمنٹس کی ماں کہلاتی ہے، وہاں بھی تاج برطانیہ اپنی پوری شان و شوکت سے قائم ہے۔ ملکہ ایلزبتھ 91 سال کی عمر میں براجمان ہیں۔ شاہی خاندان کی روایت کے مطابق سب سے بڑا بیٹا یا بیٹی تخت برطانیہ کے وارث ہوتے ہیں۔ ہند میں بھی موروثی سیاست خاصے عرصے تک پروان چڑھی، پنڈت جواہر لعل نہرو کے بعد اُن کی بیٹی اندرا گاندھی وزیراعظم بنیں اور پھر ان کی اپنے سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد بڑے صاحبزادے راجیو گاندھی برسراقتدار آئے۔
بڑے بیٹے تو پہلے ہی 1980ء میں ایک فضائی حادثے کا شکار ہوچکے تھے۔ شام (جو ایک قدیم تحریک و ثقافت کا منبع و مرکز ہے) میں بادشاہت ختم ہونے کے بعد حافظ الاسد اقتدار پر قابض ہوئے اور اُن کی موت کے بعد اُن کا بیٹا بشارالاسد آج تک صدارتی عہدے پر براجمان ہے۔ لاکھ مظاہرے ہوئے، خون خرابہ (جو آج تک جاری و ساری ہے) ہوا، لاکھوں لوگ لقمۂ اجل بن گئے، لاکھوں بے گھر ہوگئے لیکن قیادت کی کوئی تبدیلی نظر نہیں آئی۔ دُنیا کے اور بہت سارے ممالک میں موروثیت کا دور دورہ ہے یا ماضی حال تک رہا لیکن میں جو سوال پوچھنا چاہتا ہوں وہ بہت سیدھا سادہ ہے۔ آخر وزیراعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز کس حیثیت میں Prime Minister House سے Tweet پہ والد محترم کی حمایت میں پیغام بھیجتی رہتی ہیں۔
اُن کی سرکاری حیثیت تو کوئی نہیں، کوئی عہدہ نہیں، اُن کے شوہر کیپٹن (ر) صفدر (جو نواز شریف کے دوسرے دور میں اُن کے اے ڈی سی تھے) نے مریم سے شادی کی جس میں خود نواز شریف شریک نہیں ہوئے لیکن وہ آج باپ کی آنکھ کا تارا ہیں، ہیلتھ کارڈ اسکیم کروفر سے چلا رہی ہیں۔ پاناما لیکس کیس جب سپریم کورٹ کے سامنے تھا تو یہی مریم نواز روز ٹوئٹ کے ذریعے کوئی نہ کوئی پیغام بھیجتی رہتی تھیں، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی بار بار تنقید کے بعد اُنہوں نے وزیراعظم ہائوس سے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور میڈیا سیل (جو وہ اچھے خاصے عرصے تک چلاتی رہیں) کو ایک ہوٹل میں منتقل کردیا۔ ظاہر تھا، کہیں سپریم کورٹ کی گرفت میں نہ آجائیں۔ پچھلے ہفتے بلکہ صرف چند دنوں پہلے مریم نے ایک اور ٹوئٹ کیا کہ پاناما ایشو ردّی کی ٹوکری میں پھینک دیا گیا۔ جرمنی جہاں سے یہ تماشا کھڑا ہوا تھا اور بین الاقوامی سطح پر آناً فاناً پھیل گیا، کئی ایک ملکوں کے سربراہان حکومت کو ہدف بھی بنایا، اُس دیار غیر سے ایک تردیدی بیان جاری ہوا کہ پاناما لیکس ردّی کا ٹوکرا نہیں بلکہ لاکھوں صفحات پر مبنی حقیقت کا پلندہ ہے۔
مریم نواز شوق سے اپنے والد محترم کی حمایت جاری رکھیں۔ یہ اُن کا حق ہے، ایک بیٹی اور ایک پاکستانی کی حیثیت سے لیکن حکومتی معاملات میں دخل اندازی کئے بغیر… پاناما لیکس کا معاملہ ابھی تک زیر تفتیش ہے بلکہ سپریم کورٹ کے باضابطہ زیر اثر اس معاملے کو پوری طرح حقائق کی نچلی ترین سطح تک پہنچانے کی کوشش کی جارہی ہے، ایسی صورت میں مریم کا ٹوئٹ اختیارات سے تجاوز کے علاوہ اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہ سراسر حکومتی معاملات میں مداخلت اور سپریم کورٹ پرا ثرانداز ہونے کی سعی لاحاصل تھی۔ ظاہر ہے اس پر بُری طرح تنقید ہوئی اور ہونی بھی چاہئے تھی۔ حکومت جس طور پر نظام چلا رہی ہے، اُس سے تو صاف ظاہر ہے کہ وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہے، حواس باختہ ہے۔ اُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا۔ ایک طرف تو کہا گیا کہ ڈان نیوز پر بنائے گئے کمیشن نے اپنی رپورٹ وزارت داخلہ کو بھرپور طور پر تفتیش کرکے حوالے کردی، بات آگے بڑھادی گئی اور رپورٹ پرائم منسٹرآفس پہنچ گئی لیکن عجوبہ تو یہ ہے کہ جب وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کراچی میں یہ کہہ ڈالا کہ وزیراعظم کو اس رپورٹ پر عملدرآمد کا حق ہی نہیں تھا۔ رپورٹ پر آرڈرز تو وزارت داخلہ ہی کرسکتی ہے، اس لئے رپورٹ کے نتائج دوبارہ عوام کے سامنے پیش کئے جائیں گے۔ بات یہیں تک موقوف ہوتی تو خیر تھی لیکن آرمی کے آفیسر میجر جنرل آصف غفور (جو آئی ایس پی آر کے سربراہ ہیں) نے فوری Tweet جاری کردیا کہ آرمی اس رپورٹ کو مسترد کرتی ہے۔
بات یہاں تک پہنچی کہ وزیراعظم کی درخواست پر آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے نواز شریف سے ملاقات کی جس میں وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیر داخلہ چوہدری نثار اور پنجاب کے وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے چھوٹے بھائی شہباز شریف شریک تھے۔ دونوں میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ آئندہ مل جل کر معاملات طے کئے جائیں گے۔
یہ وزیراعظم کی عقلمندی تھی۔ ہم اسے اُن کی کمزوری بھی کہہ سکتے ہیں لیکن دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ ظاہر ہے ماضی میں نواز شریف نے صلح صفائی کے بجائے فوج کے ایک سربراہ کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ جنرل وحید کاکڑ نے اختلاف کی سزا پائی اور جنرل آصف نواز اور جنرل اسلم بیگ سے بھی اُن کی نہیں بن لیکن نواز شریف جنرل پرویز مشرف سے سبق سیکھ چکے تھے، اُن سے بھی اُنہوں نے پنجہ آزمائی کی کوشش تو کی لیکن اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔ یہاں یہ بات وثوق سے کہتا چلوں کہ اپریل 1998ء میں پرویز مشرف نے نواز شریف سے تنہائی میں ملاقات کرکے یہ بات اُن کے ذہن نشین کروادی تھی کہ وہ (مشرف) جہانگیر کرامت نہیں بنیں گے لیکن نواز شریف پہ اقتدار کا نشہ اس بُری طرح چڑھا ہوا تھا کہ اُنہوں نے اپنے والد محترم تک کی بات کو نظرانداز کردیا او ر بالآخر جلاوطنی پر مجبور کردیے گئے۔ ہمارے آمر یہ بات بھول جاتے ہیں کہ عوام اگر طیش میں آگئے تو کوئی اُن کا راستہ نہیں روک سکتا۔
مصر کے تحریر اسکوائر میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ ایک آمر کو عوامی غیظ و غضب کے آگے سر جھکانا پڑا، انتخابات ہوئے اور مُرسی صدر بنے، یہ اور بات ہے کہ بعد میں جب عوامی غصہ ٹھنڈا ہوگیا تو فوج نے پھر سے اقتدار پر قبضہ کرلیا اور مُرسی کو جیل کی سزا ہوگئی۔ ایسے کھیل تماشے تو ہم بڑے دیکھ چکے ہیں، پر کبھی نہ کبھی تو معاملات اور ہی ہوجاتے ہیں۔ مریم نواز کو تاریخ سے سبق سیکھنا چاہئے۔ اُن کے والد محترم خاصی تکلیف میں ہیں، اُن کی شان میں درباری (جس میں صحافی تک شامل ہیں) کچھ بھی کہتے رہیں، ہوا کا رُخ بدلا ہوا صاف نظر آرہا ہے۔ مریم پہلے حکومت یا (ن) لیگ میں کوئی عہدہ حاصل کریں پھر وہ Tweet کرسکتی ہیں، فی الحال تو اُن کا عمل مداخلت ہی سمجھا جائے گا۔ اُنہیں اس سے باز رہنا چاہئے۔ ہمارا مخلصانہ مشورہ تو یہی ہے، آگے اُن کی مرضی۔