شاہ عبداللہ سائنس و ٹیکنالوجی یونیورسٹی ’کاوسٹ‘ کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کا مشہور صحرا ’ربع الخالی‘ صدیوں قبل سبزہ زاروں اور دریا و نہروں کی سرزمین تھا۔
اخبار 24 کے مطابق ’کاوسٹ‘ کی ارضیاتی تحقیقاتی ٹیم نے صحرائے ربع الخالی پر جو تحقیق کی ہے اس کے مطابق ماضی بعید میں سعودی عرب کے مشہور صحرا کی حالت یہ نہیں تھی جو آج ہم دیکھ رہے ہیں بلکہ یہاں دریا بہتے تھے جگہ جگہ نہریں تھیں اور پورا علاقہ سبزے سے بھرا تھا اسی وجہ سے جزیرۃ العرب میں آبادی تیزی سے پھیلی۔

کاوسٹ کی ٹیم نے تحقیقی سروے پروفیسر عبدالقادر العفیفی کی سربراہی میں کیا جس میں متعدد جامعات اور عالمی تحقیقاتی اداروں کی ٹیمیں بھی شامل تھیں۔
سروے ٹیم نے صحرائے ربع الخالی کے وسط میں ایک بڑے عظیم الشان دریا کے آثار دریافت کیے ہیں جس کا رقبہ 1.1 ہزار کلومیٹر مربع سے زیادہ اور گہرائی 42 میٹر کے قریب ہے۔ یہ دریا مسلسل بارشوں کی وجہ سے وجود میں آیا اور اس کا کٹاو بڑھتے بڑھتے صحرا میں 150 میٹر تک چلا گیا تھا۔