یورپی یونین میں فیک نیوز کے حوالے سے کام کرنے والے تحقیقی ادارے ’ای یو ڈس انفو لیب‘ نے اپنی نئی رپورٹ میں کہا ہے کہ انڈین نیوز ایجنسی ایشین نیوز انٹرنیشنل (اے این آئی) تواتر سے اپنی خبروں میں ان صحافیوں، تنظیموں اور بلاگرز کا حوالہ دیتی ہے جو اپنا وجود ہی نہیں رکھتے۔
’ای یو ڈس انفو لیب‘ نے اپنی نئی تحقیقاتی رپورٹ کو ’بیڈ سورسز‘ کا نام دیا ہے جس کی تمام تر توجہ انڈین نیوز ایجنسی کے کام کرنے کے طریقے پر رکھی گئی ہے کہ کیسے اے این آئی انڈیا میں پاکستان اور چین مخالف بیانیے بناتی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اے این آئی کی خبریں انڈیا کی دیگر بڑے نیوز پلیٹ فارمز بشمول دا پرنٹ، بزنس سٹینڈرڈ اور یاہو نیوز پر بھی چھپتی ہیں۔
ڈس انفو لیب کے مطابق ایک آرٹیکل میں اے این آئی نے ایک ایسے تھنک ٹینک کی رپورٹ کا حوالہ دیا جو کینیڈا کے ایک سابق رکن پارلیمنٹ نے 2012 میں بنائی تھی اور اسے 2014 میں بند کردیا گیا۔
مزید پڑھیں
-
انڈیا: پیسے نہ ہونے پر آئی فون پہنچانے والا ڈیلیوری بوائے قتلNode ID: 744816
-
بحرین آنے والے سیاحوں میں سعودی سرفہرست، انڈیا دوسرے نمبر پرNode ID: 745226
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈین نیوز ایجنسی اکثر اپنے آرٹیکلز میں ’پالیسی ریسرچ گروپ‘ نامی تھنک ٹینک کا حوالہ دیتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ پچھلے دو سالوں میں تین نئے ریسرچرز نے اس تھنک ٹینک میں شمولیت اختیار کی ہے لیکن ’ای یو ڈس انفو لیب‘ نے جب ان افراد کو ڈھونڈنے کی کوشش کی تو انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔
ان تین افراد میں ’جیمز ڈگلس کرکٹن‘ بھی شامل ہیں جنہوں نے 2016 میں صحافیوں کی توجہ اس وقت حاصل کی جب ان کے نام سے پاکستان کے سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) مشرف کے حوالے سے لکھا گیا ایک آرٹیکل منظر عام پر آیا۔
#BadSources - our latest investigation into how Indian news agency ANI repeatedly quoted non-existent bloggers, experts, journalists and think tanks spreading anti-Pakistan/China narratives in India.1/Nhttps://t.co/24o5ekFwUE#BadSources #StoryKillers
— EU DisinfoLab (@DisinfoEU) February 23, 2023