Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

90 روز میں انتخابات، صدر پنجاب اور گورنر کے پی میں تاریخ دیں: سپریم کورٹ کا حکم

عدالتی فیصلے میں دو ججز کے اختلافی نوٹ سبھی سامنے آئے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے تین دو کے تناسب سے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے کا حکم دے دیا ہے۔  
عدالت نے پنجاب میں صدر کی دی ہوئی تاریخ کو آئینی طور پر درست قرار دیتے ہوئے گورنر خیبر پختونخوا کو صوبے میں فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دینے کا بھی حکم دے دیا ہے۔  

اس بارے میں اردو نیوز کے لائیو پیج کے لیے یہاں کلک کریں

تاہم مزید دو ججز کی جانب سے اختلافی نوٹس سامنے آنے کے بعد حکومت کی جانب سے یہ موقف سامنے آیا ہے کہ فیصلہ تین دو سے نہیں بلکہ چار تین کے تناسب سے سامنے آیا ہے اس لیے الیکشن کی تاریخ کون دے گا اس کا فیصلہ لاہور اور پشاور ہائی کورٹ ہی کریں گی۔  
بدھ کو سپریم کورٹ میں چار روز کی سماعت کے بعد منگل کی شام محفوظ کیا گیا فیصلہ صبح 11 بجے سنایا جانا تھا لیکن سپریم کورٹ میں صبح 10 بجے سے بھی پہلے گہما گہمی اور چہ مگوئیاں شروع ہو گئی تھیں۔
تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سیاسی رہنماؤں کی آمد اور میڈیا سے گپ شپ میں یہ تاثر واضح تھا کہ سپریم کورٹ کی جانب سے انتخابات کا حکم ہی ملے گا۔  
ججز کی آمد سے قبل ہی کمرہ عدالت نمبر ایک کھچاکھچ بھر چکا تھا اور اضافی رش سے بچنے کے لیے کمرہ عدالت نمبر چھ اور سات میں آڈیو کا اہتمام کیا گیا تھا۔  
11 بج کر 16 منٹ پر ججز کمرہ عدالت نمبر ایک میں پہنچے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے فیصلہ سنانا شروع کیا اور بتایا کہ یہ فیصلہ تین دو کے تناسب سے سنایا جا رہا ہے۔ دو ججز نے اختلافی نوٹ لکھے ہیں۔ چیف جسٹس نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کے اختلافی نوٹ پڑھ کر سنائے۔  

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ 90 روز میں انتخابات آئینی تقاضا ہے (فوٹو: پنجاب اسمبلی)

بعد ازاں چیف جسٹس نے فیصلے کا آپریٹیو پارٹ پڑھ کر سنایا۔ 

 90 دن میں انتخابات آئینی تقاضا ہے۔ عدالتی فیصلہ  

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ عام اتنخابات کا طریقہ کار مختلف ہوتا ہے۔ آئین میں اپنے وقت پر اسمبلی تحلیل ہونے کی صورت میں انتخابات کے لیے 60  اور قبل از وقت اسمبلی توٹنے یا تحلیل ہونے پر 90  دن کا وقت دیا گیا ہے۔ موجودہ صورت حال میں اسمبلی کی تحلیل کے بعد 90 روز میں انتخابات ہونا لازم ہے۔
پنجاب اسمبلی گورنرکے دستخط نہ ہونے پر 48 گھنٹے میں خود تحلیل ہوئی جبکہ کے پی اسمبلی گورنر کی منظوری پر تحلیل ہوئی۔ 
فیصلے میں کہا گیا ہےکہ گورنر کو آئین کے تحت تین صورتوں میں اختیارات دیےگئے ہیں۔ گورنر آرٹیکل 112 کے تحت، دوسرا وزیراعلٰی کی ایڈوائس پر اسمبلی تحلیل کرتے ہیں۔
’آئین کا آرٹیکل 222 کہتا ہےکہ انتخابات وفاق کا سبجیکٹ ہے۔ الیکشن ایکٹ گورنر اور صدر کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار دیتا ہے۔ اگر اسمبلی گورنر نے تحلیل کی تو تاریخ کا اعلان بھی گورنر کرےگا۔ اگر گورنر اسمبلی تحلیل نہیں کرتا تو صدر مملکت سیکشن 57 کے تحت انتخابات کی تاریخ دے سکتے ہیں۔‘ 

 پنجاب میں صدر اور کے پی میں گورنر انتخابات کی تاریخ دیں۔ عدالت کا حکم  

 عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار حاصل ہے۔ اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری پر دستخط کرنے کے بعد انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کی آئینی ذمہ داری گورنر کی ہے۔
’ گورنر کے پی نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے آئینی ذمہ داری سے انحراف کیا۔ الیکشن کمیشن فوری طور پر صدر مملکت کو انتخابات کی تاریخ تجویز کرے۔ الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد صدر پنجاب میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔‘
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’گورنر کے پی صوبائی اسمبلی میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان کریں۔ ہر صوبے میں انتخابات آئینی مدت کے اندر ہونے چاہییں۔‘ 

عدالت نے حکم دیا کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنرز الیکشن کی تاریخ دیں (فوٹو: اے ایف پی)

عدالت عظمیٰ کا کہنا ہےکہ الیکشن کمیشن صدر اور گورنر سے مشاورت کا پابند ہے۔ نو اپریل کو انتخابات ممکن نہیں تو مشاورت کے بعد پنجاب میں تاریخ بدلی جا سکتی ہے۔ 
سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تمام وفاقی اور صوبائی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ انتخابات کے لیے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں۔ وفاق الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے تمام سہولیات فراہم کرے۔ عدالت انتخابات سے متعلق یہ درخواستیں قابل سماعت قرار دے کر نمٹاتی ہے۔ 

دو ججز کا اختلافی نوٹ  

فیصلے میں پانچ رکنی بینچ کے دو ممبران نے درخواستوں کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض کیا، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا۔ 
جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھے جن میں کہا گیا ہےکہ آرٹیکل 184/3کے تحت یہ کیس قابل سماعت نہیں۔ عدالت کو اپنا 184/3 کا اختیار ایسے معاملات میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ 
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہےکہ ’انتخابات پر لاہور ہائیکورٹ فیصلہ دے چکی ہے۔ سپریم کورٹ ہائیکورٹ میں زیر التوا معاملے پر ازخود نوٹس نہیں لے سکتی۔ پشاور اور لاہور ہائیکورٹ نے تین دن میں انتخابات کی درخواستیں نمٹائیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کے نوٹس سے اتفاق کرتے ہیں۔‘ 
اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہےکہ ’انتخابات پر ازخود نوٹس کی درخواستیں مسترد کرتے ہیں، اس معاملے پر از خود نوٹس بھی نہیں بنتا تھا۔‘ 
فیصلے سے اختلاف کرنے والے جج صاحبان کا کہنا ہےکہ  لاہور ہائی کورٹ کا سنگل بینچ  پہلے ہی پٹیشنر کے حق میں فیصلہ دے چکا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کے سنگل بینچ کے فیصلےکے خلاف انٹرا کورٹ اپیل ڈویژن بینچ میں زیر التوا ہے۔
’صوبائی ہائی کورٹس کی آئینی حدود میں ازخود مداخلت نہیں کی جا سکتی۔ ہائی کورٹس کی آئینی حدود میں مداخلت آئین کے بنیادی ڈھانچے کے خلاف ہے۔ ہائی کورٹس کی آئینی حدود میں مداخلت صوبائی آئینی عدالتوں کی آزادی کے خلاف ہے۔ آئینی صوبائی عدالتوں کو کمزور کرنےکے بجائے مضبوط کرنا چاہیے۔‘
اختلافی نوٹ میں کہا گیا کہ ’ہائی کورٹس میں جاری ان معاملات کی کارروائی میں کوئی تاخیر نہیں ہے۔ سپریم کورٹ کی حالیہ کارروائی ہائی کورٹس میں جاری کارروائی میں رکاوٹ کا سبب بنی ہے۔ ہائی کورٹس کو ان آئینی معاملات پر تین دنوں میں فیصلےکا حکم دیتے ہیں۔ ایسے تمام معاملات کو حل کرنا پارلیمان کا اختیار ہے۔‘ 

از خود نوٹس کیوں لیا گیا تھا؟ 

سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے غلام محمود ڈوگر کیس میں 16 فروری کو ازخودنوٹس کے لیے معاملہ چیف جسٹس کو بھیجا تھا جس پر سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان نہ ہونے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے نو رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا تھا۔ 
حکمران اتحاد نے نو رکنی لارجر بینچ میں شامل دو ججز پر اعتراض اٹھایا جس کے بعد جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس مظاہر نقوی نے خود کو بینچ سے الگ کر لیا اور جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ بھی نو رکنی بینچ سے علیحدہ ہو گئے۔ 
نو رکنی بینچ ٹوٹنےکے بعد  چیف جسٹس پاکستان نے بینچ کی ازسر نو تشکیل کرکے اسےپانچ رکنی کر دیا تھا۔  

شیئر: