Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

صوبوں میں انتخابات، سپریم کورٹ فیصلہ تین دو کا ہے یا چار تین کا؟

اعظم نذیر تارڑ کے مطابق انتخابات کے حوالے سے دائر درخواستیں چار تین کے تناسب سے مسترد ہوگئی ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں تاخیر سے متعلق لیے گئے از خود نوٹس کیس کا فیصلہ سنانے کے لیے آئے تو انہوں نے کمرہ عدالت میں بتایا کہ یہ فیصلہ تین دو کے تناسب سے سنایا جا رہا ہے۔  
اپنے فیصلے میں عدالت نے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات 90 دنوں میں کرانے، جبکہ پنجاب میں صدر کی دی ہوئی تاریخ کو آئینی طور پر درست قرار دیتے ہوئے گورنر خیبر پختونخوا کو صوبے میں فوری طور پر انتخابات کی تاریخ دینے کا بھی حکم دے دیا ہے۔ 
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کیے گئے تحریری فیصلے کے آخر میں جہاں تمام ججز کے دستخط موجود ہیں وہاں ایک جج نے لکھا ہے کہ ’میں نے الگ سے فیصلہ تحریر کیا ہے‘ جبکہ دوسرے جج نے لکھا ہے کہ ’میں نے اس فیصلے ساتھ الگ سے نوٹ لکھا ہے۔‘  
چیف جسٹس نے عدالت میں دونوں معزز جج صاحبان کے اختلافی نوٹ بھی پڑھ کر سنائے اور کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے پر اختلافی نوٹ لکھے ہیں۔  
اختلافی نوٹس میں کہا گیا ہےکہ آرٹیکل 184/3 کے تحت یہ کیس قابل سماعت نہیں۔ عدالت کو اپنا 184/3 کا اختیار ایسے معاملات میں استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ 
اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہےکہ انتخابات پر لاہور ہائیکورٹ فیصلہ دے چکی۔ سپریم کورٹ ہائی کورٹ میں زیر التوا معاملے پر ازخود نوٹس نہیں لے سکتی۔ پشاور اور لاہور ہائی کورٹ نے تین دن میں انتخابات کی درخواستیں نمٹائیں۔ 
دونوں ججز نے کہا کہ وہ جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس اطہرمن اللہ کے نوٹس سے اتفاق کرتے ہیں۔ اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ انتخابات پر ازخود نوٹس کی کارروائی نہیں بنتی جبکہ دائر درخواستیں بھی مسترد کرتے ہیں۔  
کمرہ عدالت میں جب یہ فیصلہ سنایا جا رہا تھا تو عمومی طور پر یہی سمجھا گیا گیا کہ یہ فیصلہ تین دو کے تناسب سے آیا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے رہنماوں نے سپیکرز کے وکیل بیرسٹر علی ظفر اور صدر مملکت کے وکیل سلمان اکرم راجا کو مبارکبادیں بھی دیں۔  
لیکن جونہی چیف جسٹس نے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کی جانب سے لکھے اختلافی نوٹس میں یہ جملہ پڑھا کہ ’ہم جسٹس یحیٰی آفریدی اور جسٹس اطہر من اللہ کے فیصلے سے اتفاق کرتے ہیں تو کمرہ عدالت کا ماحول تبدیل ہونے لگا۔ بعض وکلا ایک دوسرے کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے نظر آئے۔ سماعت ختم ہوئی تو کسی وکیل نے آواز لگائی کہ ’فیصلہ تین دو سے نہیں چار تین کا ہوگیا ہے۔‘ 
اردو نیوز نے جب یہی بات اس کیس میں صدر مملکت عارف علوی کے وکیل سلمان اکرم راجا کے سامنے رکھی تو انہوں نے کہا کہ ’نو رکنی بینچ دو ججز کے بینچ سے علیحدہ ہونے کے بعد ٹوٹ گیا تھا۔ جس کے بعد چیف جسٹس نے اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرتے ہوئے نیا بینچ تشکیل دیا تھا۔ نو رکنی بینچ میں شامل جن ججز نے اختلافی نوٹ دیا تھا وہ معاملہ ادھر ہی ختم ہوگیا تھا۔ یہ بینچ نئے سرے سے بنا اور اس نے نئے سرے سماعت کی۔ چیف جسٹس نے بتایا کہ فیصلہ تین دو کے تناسب سے ہے تو اس فیصلے سے سابق فیصلے کا تعلق نہیں بنتا۔‘  
جب ان سے پوچھا گیا کہ پانامہ کیس کا فیصلے دینے والا بینچ بھی ختم گیا تھا، لیکن جب فیصلہ سنانے کا وقت آیا تھا ان دو ججز کی رائے بھی شامل کی گئی تھی جو اس بینچ کا حصہ نہیں تھے۔

سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’پانامہ بینچ ٹوٹا نہیں تھا بلکہ جن دو ججز نے پہلا فیصلہ دیا تو وہ صرف سماعت میں موجود نہیں تھے۔‘ (فوٹو: اے ایف پی)

اس پر سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ ’پانامہ بینچ ٹوٹا نہیں تھا بلکہ جن دو ججز نے پہلا فیصلہ دیا تو وہ صرف سماعت میں موجود نہیں تھے، لیکن وہ بینچ اپنی جگہ موجود رہا تھا۔ اس لیے جب حتمی فیصلے کا وقت آیا تو وہ نہ صرف بینچ میں شامل ہوئے بلکہ انہوں نے فیصلہ بھی دیا۔‘ 
ان کا کہنا تھا کہ ’ان دو بینچوں کا موازنہ درست نہیں ہے کیونکہ موجودہ بینچ کی تشکیل ہی نئے سرے سے ہوئی ہے۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیئر وکیل شفقت عباسی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’معاملے کو قانون کی رو سے دیکھیں تو سلمان اکرم راجا درست کہہ رہے ہیں کہ نو رکنی بینچ ٹوٹ چکا تھا اس لیے اس میں شامل کسی جج کی رائے کو موجودہ فیصلے کے ساتھ نہیں ملایا جا سکتا۔ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو یہ ایک سیاسی بات ہوگی۔ قانونی اعتبار سے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔‘  
دوسری جانب حکومت نے اس فیصلے پر اپنے باضابطہ ردعمل میں قرار دیا ہے کہ یہ فیصلہ تین دو سے نہیں بلکہ چار تین سے آیا ہے۔
فیصلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے اٹارنی جنرل شہزاد عطا الٰہی نے کہا کہ جب چیف جسٹس نے دو ججز کے اختلافی نوٹ پڑھے تو انہوں نے اس میں شامل حاشیے نہیں پڑھے۔ جسٹس منصور کے نوٹ کا دوسرا  پیراگراف اہمیت کا حامل ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ دو ججز کے نوٹ سے اتفاق کرتے ہیں۔  
انہوں نے کہا کہ جسٹس منصور علی شاہ کے اختلافی نوٹ کے حاشیہ میں کہا گیا ہے کہ جسٹس یحییٰ اور جسٹس اطہرمن اللہ کے نوٹ بھی کیس کے ریکارڈ کا حصہ ہیں۔  
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ اگر وہ نوٹس اگر اس کیس کے ریکارڈ کا حصہ ہیں تو یہ تین دو کا نہیں بلکہ چار تین کا فیصلہ ہے۔  
اٹارنی جنرل کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو پڑھنے اور اس کا جائزہ لینے کے بعد ہمارا موقف ہے کہ انتخابات کے حوالے سے دائر درخواستیں چار تین کے تناسب سے مسترد ہوگئی ہیں اور اس حوالے سے لیا گیا از خود نوٹس بھی درست نہیں تھا۔  
انہوں نے کہا کہ ’ دونوں ہائی کورٹس میں درخواستیں ابھی تک زیرسماعت ہیں۔ کوئی بھی انتخابات سے نہیں بھاگ رہا۔ ایک آئینی نکتے نے سر اٹھایا ہے جو آئینی اور قانونی بات ہے اور اب اس کا فیصلہ متعلقہ ہائی کورٹس ہی کریں گی۔‘

شیئر: