نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ سے نکل کر سامنے کی سڑک پار کی تھی کہ ایک نوجوان میری طرف لپکا، ٹیکسی چاہئے؟ اس کے سوال میں بے چینی تھی
جاوید اقبال
سندھ کے وزیر تعلیم جام مہتاب ڈہر نے اپنے صوبے میں امتحانات کے دوران نقل کے بڑھتے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے آدھے گھنٹے میں رپورٹ طلب کرلی۔
نیویارک کے جان ایف کینیڈی ایئرپورٹ سے نکل کر سامنے کی سڑک پار کی تھی کہ 27 ، 28 سالہ ایک نوجوان میری طرف لپکا۔ ٹیکسی چاہئے؟ اس کے سوال میں بے چینی تھی۔ ہاں، میرا جواب تھا۔ منزل مقصود کا پوچھے بغیر اس نے میرا سامان گاڑی میں رکھا اور ہم چل دیئے۔ کیا سارا وقت ٹیکسی ہی چلاتے ہو؟ میں نے سوال کردیا۔ اس کی شستہ اردو واضح کرتی تھی کہ وہ پاکستانی ہے۔ نہیں صرف 4 گھنٹے روزانہ یہ کام کرتا ہوں۔ وہ بولا۔ اور پھر اس نے اپنی داستان کہہ ڈالی۔ گوجرانولہ کے محمد ارشد نے بڑے چاﺅسے ا یم بی بی ایس کیا تھا اور پھر من میں امریکہ کی جوت جاگی۔ دن رات کی محنت شاقہ کام آئی اور اعلیٰ تعلیم کیلئے مخصوص امتحانوں اسٹیپس ون اور ٹو میں بھی امتیازی نمبروں سے کامیابی حاصل کرلی۔ نیویارک پہنچ گیا لیکن ایک اور دریا کا سامنا تھا۔ امریکی طبی مراکز اپنے ہاں تعلیم اور تربیت حاصل کرنے کیلئے صرف انہی امیدواروں کو شرف قبولیت بخشتے ہیں جنہیں انگریزی زبان پر قابل رشک عبور ہوتا ہے۔ اس کیلئے انہوں نے کمیونیکشن اسکلز ایگزام یعنی سی ایس ای کے نام سے ایک انتہائی مشکل امتحان بنا رکھا ہے۔ امیدوار کو اس کا ممتحن اپنے اسپتال کے وارڈ میں لے جاتا ہے جہاں نصف درجن کے قریب مریض بستروں پر پڑے کراہ رہے ہوتے ہیں۔ امیدوار سے کہا جاتا ہے کہ وہ ان سے بات چیت کرے، ان کے امراض کی تشخیص کرکے ان کی فائلیں مکمل کرے۔ کارروائی کا آغاز ہوتا ہے۔ امریکہ کی مختلف ریاستوں کے لہجوں میں انگریزی بولنے والے مریض اپنا دکھڑا روتے ہیں اور طبیب اپنی سمجھ کے مطابق ان کی نبضیں ٹٹولتا فائلیں بناتا ہے۔ ممتحن بڑی خاموشی سے امیدوار کے ساتھ چلتا اس کے کہے ہر ہر لفظ پر کان لگائے رہتاہے۔ مختصر راﺅنڈ اختتام پذیر ہوتا ہے تو امیدوار کی جان میں جان آتی ہے۔ ایک ہفتے بعد اسے اسپتال کی طرف سے مبارکباد یا معذرت کا پیغام مل جاتا ہے۔ بعد میں کھلتا ہے کہ وہ نصف درجن مریض بھی درحقیقت اسپتال کے مختلف شعبوں کے اطباءہی تھے جو امیدوار کی انگریزی اور طب پر دسترس کا اندازہ کرنے کیلئے بستر سنبھالے بیٹھے تھے۔ گوجرانوالہ کا ڈاکٹر محمد ارشد گزشتہ 3 برسوں سے اس امتحان میں ناکام ہورہا تھا اور جزوقتی ڈرائیور بن کر اپنے اخراجات پورے کر رہا تھا۔ ایم بی بی ایس کیا ہوا ہے۔ پاکستان میں تو بغیر محنت کے کوئی اتنی آسانی سے طبیب نہیں بنتا، پھر یہاں اتنی مشکل کیوں؟ میرا سوال تھا۔ اسی بات کا تو رونا ہے۔ موبائل فون کے بجائے کتاب کو وقت دیا ہوتا تو یہ 3 برس ضائع نہ ہوتے۔ اس کی آواز میں رنج تھا۔
ذہن نصف صدی قبل کو پلٹا۔ معمول تھا، پڑھائی کے آغاز سے قبل پرائمری اسکول کے بچے اپنی اپنی جماعتوں کیلئے مخصوص جگہوں پر صفیں بناکر کھڑے ہوتے۔ فضا اقبال کی نظم، لب پہ آتی ہے دعا بن کر تمنا میری، کی مسحور کن گونج سے لرز اٹھتی۔ ٹاٹ پر نشست ہوتی۔ لکڑی کی تختی پر ملتانی مٹی کا لیپ کرکے اسے دھوپ میں خشک کیا جاتا۔ پھر اس پر سکے سے 4 لکیریں کھینچی جاتیں۔ نرکل کا قلم دوات میں ڈوب ڈوب کر ابھرتا اور لکیروں پر حروف تہجی کی گولائیوں اور اٹھانوں کا جادو جگاتا جاتا۔ ذہن صر ف تحریر اور جنبش قلم پر ہی مرکوز رہتا۔ چھٹی سے آدھا گھنٹہ قبل جماعت کو 2 حصوں میں تقسیم کرکے انہیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کیا جاتا اور پہاڑوں کا مقابلہ شروع ہوتا۔ دونوں گروہ ایک دوسرے کو شکست دینے کیلئے چلا چلا کر پڑھتے۔ ننھے گلے غباروں کی طرح پھولتے، چہرے سرخ ہوتے، ڈیڑھ، ڈھائی، اونٹے، ڈھونچے ، پونچے کے پہاڑے ذہن کے نہاں خانوں سے آبشار کی طرح بہتے آتے۔ کتاب ہی اکلوتی دوست ہوتی۔ ثانوی مدرسے میں ایک نئی دنیا منتظر ہوتی۔ میر، غالب اور اقبال سے متعارف ہوتے۔ درجنوں اشعار ازبر کئے جاتے۔ اردو کے گھنٹے میں مہینے میں کم ازکم 2 مرتبہ بیت بازی کا مقابلہ ہوتا۔ دونوں گروہ ایک دوسرے کو شکست دینے کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے۔ استاد غلط پڑھے گئے اشعار کی تصحیح کرتے رہتے اور گھنٹے کے اختتام پر فاتح فریق کا اعلان کرتے۔ قلم اور کتاب سے مستقل رشتہ استوار رہتا۔ بڑی سادہ اور پرخلوص زندگی گزرتی۔ موسم سرما میں معمول میں تھوڑی تبدیلی آتی۔ اسکول 3 بجے بند ہوتا۔ ڈیڑھ بجے صرف آدھے گھنٹے کیلئے نماز ظہر کا وقفہ ہوتا۔ آٹھویں، نویں اور دسویں کے طلباءاسکول کے سامنے واقع مسجد کا رخ کرتے۔ اسلامیات کے استاد ہاتھ میں پتلا سا بید سنبھالے یہ یقینی بناتے کہ طلباءکا رخ مسجد کی طرف ہی ہو۔ نماز کے بعد مسجد کے صحن میں ہی حاضری کا رجسٹر کھولا جاتا اور غیر حاضر طلباءکے ناموں پر مزید کارروائی کیلئے سرخ نشان لگائے جاتے۔
سال کے اختتام پر امتحانات کا انعقاد ہوتا تو ایک نیا ماحول ادارے کو اپنی لپیٹ میں لیتا۔ اسکول پر مکمل سکوت چھاتا۔ کمرہ امتحان کے اردگرد تقریباً 50 گز تک کا علاقہ ممنوعہ قرار دے دیا جاتا۔ نگران اپنے مددگاروں کی موجودگی میں سوالنامہ کا لفافہ کھولتا اور اس کے ہمراہ حلف نامے پر اپنے اور مددگاروں کے دستخط یقینی بناتا۔ امتحان کے دوران کسی امیدوار کی نظروں کو آوارہ ہونے کی جرا¿ت نہ ہوتی۔ اگر کسی امیدوار کو حمام کا ا ستعمال کرنا ہوتا تو ایک نگراں اس کے ہمراہ جاتا اور دروازے کے سامنے منتظر رہتا۔ پرچے کے حل میں صرف آموختہ کی مدد ہی لینی ہوتی تھی۔ غیر قانونی ذرائع اختیار کرنے والے امیدواروں سے اس کا پرچہ چھین لیا جاتا تھا اور واقع کے بارے میں مفصل رپورٹ اس کے پرچے کے ہمراہ منسلک کرکے بورڈ کو بھجوائی جاتی تھی۔ نقل جیسا قبیح فعل سرزد کرنے والا نہ صرف اپنے امتحانی مرکز بلکہ شہر بھر میں بدنام ہوجاتا تھا لیکن وہ تو ایک جہان گم گشتہ ہے، ساتھ گیا آفتاب کے!!
پرسوں جامعہ الملک سعود میں میری جماعت کا آخری امتحان تھا۔ میں نے آغاز میں ہی اعلان کیا، ہر ایک اپنا موبائل میرے پاس جمع کرا دے۔ استثنیٰ صر ف اسے حاصل ہے جسے اگلے 2 گھنٹوں کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ کی کال آنی ہے۔ پلک جھپکنے میں میرے سامنے میز پر ایک ڈھیر لگ گیا۔
سندھ کے وزیر تعلیم جام مہتاب ڈہر نے نقل کے بڑھتے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے۔ اگر جام مہتاب مشوش ہونے کے بجائے صرف یہ حکم جاری کردیں کہ امتحان سے پہلے 3 گھنٹوں کیلئے امیدواروں سے ان کے موبائل فون جمع کرلئے جائیں تو ایک بار پھر ڈیڑھ، ڈھائی، اونٹے، ڈھونچے اور پونچے کے پہاڑے ازبر ہوں گے۔ غالب، اقبال اور میر کے اشعار کی صحیح اور برمحل ادائیگی بھی ہوگی اور ہمارے ڈگری یافتہ نوجوان امریکہ میں ٹیکسیاں چلاکر عمر یں بھی برباد نہیں کریں گے۔
٭٭٭٭٭٭