اٹلی جانے والے تارکین وطن کی ایک اور کشتی ڈوب گئی، 34 لاپتہ
اٹلی جانے والے تارکین وطن کی ایک اور کشتی ڈوب گئی، 34 لاپتہ
ہفتہ 25 مارچ 2023 7:38
تیونس کے حکام کا کہنا ہے کہ دو روز میں کشتی ڈوبنے کا یہ پانچواں واقعہ ہے (فوٹو: اے ایف پی)
اٹلی جانے والی تارکین وطن کی ایک اور کشتی تیونس کے قریب ڈوب گئی ہے جس کے نتیجے میں 34 افراد لاپتہ ہو گئے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تیونس کے حکام کا کہنا ہے کہ دو روز میں کشتی ڈوبنے کا یہ پانچواں واقعہ ہے اور ان واقعات میں اب تک 67 افراد لاپتہ ہو چکے ہیں۔
جمعرات کو دو مختلف ریسکیو آپریشنز میں اطالوی ساحل کے قریب 750 افراد کو بچا لیا گیا تھا جبکہ پانچ افراد ہلاک ہو گئے تھے جبکہ 33 افراد نہ مل سکے تھے۔
بعدازاں تیونس کے جج فوذی مسمودی کا کہنا ہے کہ واقعے میں صفاقس کے ساحل کے قریب سات افراد ہلاک ہوئے جن میں بہت چھوٹے اور کچھ بڑے بچے بھی شامل ہیں۔
نیشنل گارڈ حوسم جابیبلی کا کہنا ہے کہ دو دنوں کے دوران گارڈز نے اٹلی جانے والی 56 کشتیوں کو روکا اور تین ہزار سے زائد افراد کو گرفتار کیا گیا جس میں سے زیادہ تر کا تعلق افریقی ممالک سے ہے۔
اقوام متحدہ کے اعدادوشمار کے مطابق اس سال اٹلی پہنچنے والے کم از کم 12 ہزار تارکین وطن تیونس سے روانہ ہوئے تھے جبکہ 2022 میں اسی عرصے کے دوران یہ تعداد 13 سو تھی۔ خطے کے مختلف حصوں سے آنے والے تارکین وطن نے لیبیا سے سفر کا آغاز کیا تھا۔
صفاقس کا ساحل ایک ایسے بڑے مقام کے طور پر سامنے آیا ہے جس کے ذریعے افریقی اور مشرق وسطٰی سے لوگ غریب اور جنگوں سے بچنے کے لیے یورپ کی طرف جاتے ہیں۔
ان دنوں تیونس کو سخت معاشی بحران کا سامنا ہے کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ اس کے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں اور قرض نہ ملنے کی صورت میں ڈیفالٹ ہونے کے خدشات موجود ہیں۔
اس صورت حال پر یورپ خصوصاً ہمسایہ ملک اٹلی میں شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔
تیونس جولائی 2021 سے سیاسی ہلچل کی لپیٹ میں ہے جب صدر قیس سعید نے زیادہ تر اختیارات اپنے قبضے میں لیتے ہوئے پارلیمان کو بند کر دیا اور خصوصی حکم کے ذریعے حکومت کی طرف بڑھے۔
اٹلی کے وزیراعظم جارجی میلونی نے جمعے کو کہا تھا کہ اگر تیونس میں مالی استحکام کو یقینی نہ بنایا گیا تو یورپی ممالک کی جانب شمالی افریقہ کی طرف سے تارکین وطن کی بڑی لہر کی آمد کا خطرہ ہے۔
اطالوی وزیراعظم نے آئی ایم ایف اور کچھ دوسرے ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ تیونس کی مالی مدد کرے تاکہ اس کی صورت حال فوری طور پر سنبھل جائے۔
ان کے مطابق ’اگر ہم نے مسئلے کے حل کے لیے فوری اقدامات نہ کیے تو تارکین وطن کی ایک بڑی تعداد یہاں کا رخ کر سکتی ہے۔‘