پی ٹی آئی کے استعفے منظور، واپسی کا راستہ عدالت ہے: پرویز اشرف
پی ٹی آئی کے استعفے منظور، واپسی کا راستہ عدالت ہے: پرویز اشرف
بدھ 29 مارچ 2023 6:38
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے اراکین کی ایوان میں واپسی اب عدالت کے ذریعے ہی ہو سکتی ہے کیونکہ انہوں نے سپیکر کے پاس آنے اور استعفوں کی واپسی کی درخواست کرنے میں دیر کر دی ہے۔
اُردو نیوز سے خصوصی انٹرویو میں راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ انہوں نے تحریک انصاف کے اراکین کو استعفے واپس لینے کے لیے بار بار کہا اور اس کے لیے طویل انتظار بھی کیا، لیکن اس وقت انہوں نے ان کی بات ماننے کے بجائے ان پر استعفوں کی منظوری کے لیے دباؤ ڈالا۔
’واپسی کا راستہ ان کے پاس، عدالت میں وہ اب گئے ہوئے ہیں، دیکھتے ہیں اب عدالت کیا کہتی ہے اس معاملے میں۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ عدالت تو الیکشن کمیشن کا نوٹیفیکیشن معطل کر چکی ہے تو سپیکر قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ عدالت نے ضمنی انتخابات کا انعقاد معطل کیا ہے، استعفوں کی منظوری معطل نہیں کی۔
’انہوں (عدالت) نے الیکشن کالعدم قرار دیا ہے، لیکن سپیکر کے احکامات، سپیکر کی ہدایات کو (کالعدم کرنے کا فیصلہ) نہیں دیا ہے، استعفے ان کے منظور ہو چکے ہیں، الیکشن آگے پیچھے کر سکتی ہے عدالت۔‘
راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ’میں نے بہت دن، بہت مہینے انتظار کیا کہ جو اپوزیشن ہے، وہ تشریف لے آئے پارلیمان میں آجائے، ہر قسم کی میں نے کوشش کی، لیکن مجبور ہو گیا میں آخر ان کے استعفے منظور کرنے پر جب مجھے انہوں نے وفود بھیجے اور انہوں نے ایسے معاملات کیے جب مجھے یقین ہو گیا کہ اب یہ نہیں آنے والے اور انہوں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ وہ پارلیمان کا بائیکاٹ کریں گے۔‘
سپیکر کا کہنا تھا کہ ’آنے کا بھی ایک وقت ہوتا ہے نا، اب اگر فرض کرو استعفے منظور ہونے کے بعد آپ آئے ہیں، تو ابھی معاملہ عدالت میں چلا گیا ہے۔‘
سپیکر اور پارلیمانی نظام کی نفی
انہوں نے کہا کہ جب وہ تحریک انصاف کے اراکین کو یہ معاملہ حل کرنے کے لیے بلا رہے تھے تو انہوں نے ان کو جھٹلا دیا۔
’میں نے کہا کہ آپ آئیں، میرے سامنے پیش ہوں، ایک طریقہ کار ہے، اور ان کی قیادت اور انہوں نے علی الاعلان یہ کہا کہ کوئی رکن سپیکر کے سامنے نہیں جائے گا، یہیں سے آپ نے نفی کر دی پارلیمانی نظام کی۔ آپ کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ سپیکر کے پاس ہمارا کوئی رکن نہیں جائے گا، اگر آپ سپیکر کی نفی کر رہے ہیں، سپیکر کے بلانے پر نہیں آ رہے، تو میں تو اس لیے بلا رہا تھا کہ آپ بتائیں آ کر مجھے کہ آپ نے استعفی نہیں دیا ہے۔‘
راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ ’پہلے تو چھ ماہ یہ رٹ لگائے رکھی آپ نے کہ ہمارے استعفے منظور ہو چکے ہیں اور ہمارا جو ڈپٹی سپیکر تھے اس وقت ایکٹنگ سپیکر تھے اور انہوں نے کر لیے ہیں اب آپ کیوں رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں، پھر جب میں نے کہا کہ نہیں، میں نے یہ آگے نہیں بھیجے ہیں، میں ان کو خود دیکھوں گا تو انہوں نے کہا کہ نہیں آپ دیکھیں۔ پھر اس کے بعد ان کے پارلیمانی لیڈر نے مجھے خط لکھ دیا کہ آپ ہمار ے استعفے کیوں نہیں قبول کر رہے؟ سب کے کریں، فوری کریں۔‘
’اس کے بعد انہوں نے ایک وفد تشکیل دیا، بڑے سینیئر ممبران کا وہ میرے پاس بھیجا اور انہوں نے کہا کہ جناب یہ استعفے جو ہیں آپ فوری طور پر قبول کریں، تو پھر یہ ایک بحالت مجبوری جو ہے، پھر انہوں نے میرے پاس کوئی اور راستہ ہی نہیں چھوڑا، اور میں استعفے منظور کرنے پر مجبور ہو گیا۔‘
راجہ پرویز اشرف کا کہنا تھا کہ پارلیمان کا نظام ایک قانون کے تحت چلتا ہے اور اس معاملے میں قانون کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
’ایسے تو نہیں چلتا نا، قانون تو سب پر لاگو ہوتا ہے، اور پھر وہ اسی طرح ہوا، اب سب کے استعفے منظور ہو چکے ہیں۔ اب وہ کہتے ہیں کہ ہم نے واپس آنا ہے، اور واپس آنے کے لیے انہوں نے یہ فرمایا کہ ہمارا پارلیمان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ہم تو صرف لیڈر آف دی اپوزیشن بننے کے لیے آرہے ہیں۔‘
حکومت، اپوزیشن اور ادارے ملک کی خاطر مذاکرات کریں
ایک سوال کے جواب میں راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ ملکی حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومت، اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ ادارے بھی آگے بڑھ کر قوم کو مسائل سے نکالنے کے لیے اتفاق رائے سے حکمت عملی طے کریں اور وہ اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ میں مذاکرات کا اہتمام کرنے کے لیے تیار ہیں۔
’سب کو آگے بڑھنا ہو گا، حکومت کو بھی آگے بڑھنا ہو گا، اپوزیشن کو بھی آگے بڑھنا ہو گا، ہمارے قومی اداروں کو بھی آگے بڑھ کر بیٹھ کر اتفاق رائے سے ایک لائحہ عمل بنانا ہو گا جس پر عمل کر کے ہم اس گرداب سے نکل سکیں۔ بالکل مذاکرات ہونے چاہیں۔ بالکل، میں نے پہلے بھی کہا ہے اور اب بھی کہتا ہوں کہ پارلیمان ہی وہ جگہ ہے جہاں ہم سب بیٹھ سکتے ہیں، پارلیمان ہی ہے جو سب کی ہے، پارلیمان ہی ایسی جگہ ہے جہاں کسی کو آنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہونی چاہیے۔‘
’جس کو اداروں سے تکلیف ہے جا کر ملے اور بات کر لے‘
تاہم انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر اسٹیبلشمنٹ اور سکیورٹی اداروں کے خلاف بات کرنے پر سخت تنقید کی۔
’یہ کون لوگ ہیں جو فوج اور پاکستان کے عوام کے درمیان ایک نفرت کی دیوار کھڑی کرنا چاہتے ہیں۔ بالکل یہ غلط بات ہے اور میں ہمیشہ یہ کہوں گا ہر ایک نے اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہے، ہر ایک نے نظام میں رہ کر خدمت کرنی ہے اس ملک کی، وہ ہمارے بچے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’مجھے تو نہیں سمجھ لگتی کہ، اگر آپ اپنی فوج کو نشانہ بنانا شروع کر دیں گے، ہندوستان بھی ہماری فوج کو نشانہ بنانا چاہتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اگر فوج کمزور ہے تو پاکستان کا دفاع کمزور ہو جائے گا۔ اگر ہم خود بھی یہ شروع کر دیں یا ہمارا کوئی سیاستدان شروع کر دے یا ہماری کوئی جماعت شروع کر دے تو اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا۔‘
انہوں نے عسکری اداروں کی جانب سے سیاست میں مداخلت کے الزامات کو بھی مسترد کر دیا۔
’مداخلت کس کو آپ کہتے ہیں، آپ بتائیں نا؟ کل جب آپ حکومت میں تھے تو وہ مداخلت کر رہے تھے، آپ نے تو کہا نہیں۔ سوچیں کہ آپ کیا کرنے جا رہے ہیں، کریں سیاست جو آپ کو آتی ہے، لیکن کم از کم یہ جو قومی ادارے ہیں، سلامتی کے ادارے ہیں، یہ پاکستان کے ادارے ہیں، ان کے بارے میں اس طرح کی کوئی بھی ایسی بات کرنا، عوامی طور پر کرنا، اگر آپ کو کوئی تکلیف ہے تو جا کر ملیں ان سے جا کر، بات کریں۔‘
انہوں نے اس امکان کو بھی سختی سے رد کیا کہ کشیدہ سیاسی صورتحال کی وجہ سے ملک میں مار شل لا یا کسی تیسری قوت کی مداخلت ہو سکتی ہے۔
’یہ سب مفروضے ہیں، اس طرح کی باتیں زبان پر لانا بھی کفر ہے۔ میڈیا کے لوگ بھی احتیاط کریں، بالکل نہ کریں اس قسم کی باتیں، ہم اشارہ دیتے ہیں لوگوں کو۔‘
’انتخابات اکتوبر میں ہی ہونے چاہیں‘
راجہ پرویز اشرف نے واضح طور پر کہا کہ ملک میں عام انتخابات اکتوبر میں ہو جانے چاہیں۔
’اکتوبر میں ہوں گے انشا اللہ تعالٰی انتخابات اور ہونے چاہیں، حالات ٹھیک ہیں، دیکھیں نا حالات اس وقت اگر معاملات ٹھیک نہیں ہیں تو تین چار ماہ میں ٹھیک ہو سکتے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ کی اسمبلیوں کی مدت ہی اکتوبر میں پوری ہو رہی ہے۔‘
’اکتوبر میں جائیں گے تو پتہ چل جائے گا کیا معاملات ہوتے ہیں، لیکن اسمبلی پانچ سال کے لیے معرض وجود میں آتی ہے اور اگر کسی وجہ سے کوئی ایک پارٹی کی حکومت کمزور ہو جاتی ہے، یا نمبرز کم ہو جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں تین سال کر لیں، دو سال کر لیں، ایسے تو نہیں ہوتا، یہ پہلے بہت کھیل کھیلا گیا ہے، اور اس میں بڑی سوچی سمجھی رائے تھی تمام جماعتوں کی کہ اسمبلی کی میچورٹی کے لیے، سیاست میں میچورٹی کے لیے، جمہوریت میں بلوغت کے لیے یہ ضروری ہے کہ پانچ سال کی مدت پوری کی جائے۔‘
’جمہوریت کا مقصد ایک دوسرے کو تہس نہس کرنا نہیں‘
راجہ پرویز اشرف نے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے پاکستان تحریک انصاف کی سیاست کے خاتمے کے لیے ہر حد تک جانے کے بیانات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کا ’انتہا پسندانہ‘ طرز عمل باعث نقصان ہوتا ہے۔
’جمہوریت کا مقصد یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو پچھاڑنا ہے، اس کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دشمن ہیں، اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم نے ایک دوسرے کو تہس نہس کر کے رکھ دینا ہے۔‘