پاکستان کی وفاقی کابینہ نے عدالتی اصلاحات کے لیے قانون سازی کی منظوری دے دی ہے جس کے تحت کسی بھی معاملے پر ازخود نوٹس لینے کا فیصلہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین ججز کریں گے۔
وفاقی کابینہ نے خصوصی اجلاس میں عدالتی قانون میں اصلاحات کے لیے قانون سازی کے لیے بل کے مسودے کی منظوری دی جس کا اعلان وزیراعظم شہباز شریف نے دن کو اپنے خطاب میں کیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
-
’جو شخص آئین کو نہ مانے اس کے ساتھ بات نہیں ہو سکتی‘
Node ID: 753851
-
سارے وسائل خرچ ہوجائیں تو بھی الیکشن کروانے چاہییں: چیف جسٹس
Node ID: 753891
کابینہ سے منظورکردہ بل کو قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ بل وزیرقانون اعظم نذیر تاڑر نے پیش کیا۔
بل پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’ماضی میں بعض ازخود نوٹس جگ ہنسائی کا باعث بنے ہیں، ازخود نوٹس کے استعمال سے سپریم کورٹ کے وقار کو نقصان پہنچا۔‘
’بعض ازخود نوٹسز سے سپریم کورٹ کی ساکھ متاثر ہوئی، سپریم کورٹ کے دو ججز کا جو موقف سامنے آیا ہے اس نے مزید تشویش پیدا کر دی ہے۔‘
بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے تین سینیئر ترین جج از خود نوٹس لینے کا فیصلہ کریں گے۔ از خود نوٹس کے فیصلے پر 30 دن کے اندر اپیل دائر کرنے کا حق حاصل ہوگا اور اپیل دائر ہونے کے 14 روز کے اندر درخواست کو سماعت کے لئے مقرر کرنا ہوگا۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی قانون و انصاف نے بروز بدھ 29 مارچ کو اراکین کا اجلاس طلب کرلیا ہے۔ جس میں عدالتی اصلاحات ترمیمی بل کی منظوری دی جائے گی۔
اجلاس کی صدارت چیئرمین کمیٹی محمود بشیر ورک کریں گے۔
قبل ازیں حکومت نے چیف جسٹس کے 184/3 کے تحت ازخود نوٹس کے اختیار پر قانون سازی اورسوموٹو ایکشن کے اختیار کو ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
ایک ایسے وقت میں جب قومی اسمبلی میں اپوزیشن بھی موجود نہیں اور حکومت کے پاس قومی اسمبلی کے ایوان میں دو تہائی اکثریت بھی موجود نہیں ہے تو حکومت اس حوالے سے قانون سازی کیسے کر سکتی ہے۔ بالخصوص جب آئین کے آرٹیکل 184 کے تناظر میں ترامیم لائی جارہی ہیں۔
اس حوالے سے مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور محسن شاہ نواز رانجھا کا کہنا ہے کہ حکومت آئینی ترمیم نہیں کر رہی بلکہ سپریم کورٹ رولز میں ترمیم کرتے ہوئے 184(3) کے تحت چیف جسٹس کے اختیار کو ریگولیٹ کر رہی ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/March/36511/2023/sc1652779579-0.jpg)