خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں سونے کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن کے ذرّات دریا میں بہہ کر ساحلی علاقوں تک پہنچ جاتے ہیں اور دریائے سندھ کا پانی یہی سونا اُگل رہا ہے۔
سونے کے ذرّات یا پلیسر گولڈ گلگت بلتستان، سوات اور چترال کے دریاؤں میں سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں جو دریا کے کنارے ریت میں شامل ہو جاتے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
انڈیا میں ’طلسمی درخت‘ پر ہنگامہ کیوں کھڑا ہو گیا؟Node ID: 443551
-
کیا دریائے سندھ کی ریت میں سونا ہے؟Node ID: 454821
-
اترپردیش میں 20 برس کی تلاش کے بعد سونے کا ذخیرہ دریافتNode ID: 460546
گلگت بلستان میں دیامر، ہنزہ اور نگر وادی کو سونے کے ان ذرّات سے مالا مال سمجھا جاتا ہے۔
سونا کہاں سے آتا ہے؟
جامعہ پشاور میں شعبہ ارضیات کے پروفیسر ڈاکٹر اصغر علی نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ’زمین کے تین قسم کے حصے چٹانوں پر مشتمل ہیں جس کا ایک حصہ جو زمین کی نچلی سطح پر ہوتا ہے اسے میگما کہتے ہیں۔
میگما سے مختلف عناصر نکلتے ہیں جس میں پلیسر گولڈ یعنی سونا بھی شامل ہے۔ ڈاکٹر اصغر علی کے مطابق ’سونے کے ذرّات کی خاصیت کی وجہ سے یہ دوسرے عناصر سے آمیزش نہیں کرتے، اس لیے یہ زمینی سطح پر موجود رہتے ہیں اور نمایاں ہوتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پھر یہ پلیسر گولڈ ریت یا پتھر کے ساتھ مل کر گلیشیئر یا دوسری وجوہات کے باعث دریا تک پہنچ جاتے ہیں۔ سونے کے ذرّات بھاری ہونے کی وجہ سے پانی میں نیچے رہ جاتے ہیں اور جہاں پانی کی رفتار ہو یہ کنارے پر آجاتے ہیں۔‘
پروفیسر ڈاکٹر اصغر علی کا کہنا تھا کہ ’جس مقام میں دو دریاؤں کا ملاپ ہو رہا ہو سونا وہاں زیادہ مقدار میں پایا جاتا ہے جیسا کہ اٹک دریا کابل کے مقام پر دو دریا ملتے ہیں وہاں پلیسر گولڈ موجود ہے اور لوگ نکالتے بھی ہیں۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ سونا ہر جگہ ایک ہی کوالٹی کا ہوتا ہے لیکن کچھ جگہوں پر یہ زیادہ پایا جاتا ہے جیسے گلگت بلتستان کے کچھ ایک علاقوں میں اس کی مقدار زیادہ ہے۔
سونے کے ذرّات کو کیسے نکالا جاتا ہے؟
سونے کے ذرّات کو دریا کے کنارے تلاش کیا جاتا ہے اور اس طریقہ کار کو پلیسر گولڈ مائننگ کہتے ہیں جو صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ سونے کے ذرّات نکالنے والے محنت کش شریف اللہ نے اُردو نیوزکو بتایا کہ دریا کے کنارے موجود ریت اور پتھروں سے روایتی طریقے سے سونے کے ذرّات نکالے جاتے ہیں۔
![](/sites/default/files/pictures/March/36516/2023/img-20230329-wa0015.jpg)
’اس کے لیے سب سے پہلے ریت کو ایک چھلنی پر ڈالتے ہیں جس کے بعد چھلنی کے نیچے رہ جانی والی ریت کو ایک کشتی نما لکڑی کے آلے پر ڈالا دیا جاتا ہے جسے مقامی زبان میں کھراب کہتے ہیں۔‘
شریف اللہ نے بتایا کہ ریت کے اوپر آہستہ آہستہ پانی ڈالا جاتا ہے اور اس طرح سونے کے ذرّات نیچے بچ جاتے ہیں۔ پانی میں شامل ریت کے اندر سونے کے سنہرے ذرّات نمایاں ہو جاتے ہیں جنہیں علیحدہ کرنے کے لیے پارے کے ساتھ ملایا جاتا ہے اور یوں سونا الگ ہوجاتا ہے۔‘
شریف اللہ کے بقول دریا میں سونے کے ذرّات اتنے زیادہ ہیں کہ ’ایک مزدور آسانی سے پانچ سے چھ ہزار روپے کما لیتا ہے مگر یہ ایک محنت طلب کام ہے۔‘
چلّاس سے تعلق رکھنے والے نعیم خان بھی گذشتہ 30 برس سے دریائے سندھ سے سونا نکال کر بیچ رہے ہیں۔ اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے بتایا کہ ’سال میں تین ماہ فروری سے اپریل تک سونا نکالنے کا سیزن ہوتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’پانی کی سطح کم ہو تب ہم سونا نکالنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ ایک ٹیم ورک ہے جس کے لیے مزدور چاہیے ہوتے ہیں کیونکہ دن بھر 40 سے 50 بوری ریت سے ایک یا دو ماشہ سونا نکالنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اگر قسمت اچھی ہو تو تین سے چار ماشہ سونا بھی تلاش کرلیتے ہیں۔‘
نعیم خان کے مطابق دریا کے کنارے سونا ڈھونڈنے میں خواتین بھی مردوں کے ہمراہ ہوتی ہیں۔
ضلع چترال میں سونے کے ذخائر کہاں موجود ہیں؟
چترال سے تعلق رکھنے والے کنٹریکٹر اسد الرحمان سمجھتے ہیں کہ ’اپر چترال کے علاقے کا سونا اپنی مثال آپ ہے۔ چیونج گاؤں کے مقام پر دو دریا ملتے ہیں اس جگہ دریا کے کناروں پر بڑی تعداد میں سونے کے ذرّات پائے گئے ہیں اسی طرح شوغور کے علاقے میں سونے کے ذخائر موجود ہیں۔‘
![](/sites/default/files/pictures/March/36516/2023/58d88ef0-aa01-11ed-8f65-71bfa0525ce3.jpg)