Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مزاحیہ شاعر سلمان گیلانی کے اعزاز میں عالمی اردو مرکز کی ’’شامِ مزاح‘‘

مقام تھا اطہر نفیس عباسی کا مستقر، جہاں انتہائی تزک و احتشام سے مہمانوں کا استقبال کیا گیا
- - - - -  - - - - - - -  --
ابوغانیہ۔جدہ
- - - - - - -  - - - - -
اُردو زبان میں اک عجب سی کشش ہے، شیرینی ہے ، نفاست ہے۔اُردو بولنے والا جب بولتا ہے تو لگتا ہے کہ اس کی زبان سے الفاظ نہیں بلکہ پھول جھڑ رہے ہیں، فضاؤں میں خوشبوئوں کی مہک اور لفظوں کی کھنک محسوس ہوتی ہے،سننے والا ناطق ِ اُردو کی محبت کا اسیر ہو جاتا ہے۔ اگر یہ گلہائے مؤردکسی صنف نازک کے لبوں سے جھڑ رہے ہوںاور انہیں چننے والی سماعتیں’’مذکر‘‘ ہوں تواک نیا بندھن بندھنے میں دیر نہیں لگتی۔ زبان خواہ کوئی بھی ہو، اسے بولنے والے ہی اس کی زندگی کا سبب بنتے ہیں۔
زبان سے محبت اور اس کی خدمت کرنے والے ہی اس کی بقا کے ضامن ہوتے ہیں ۔عالمی اُردو مرکزبھی ان تنظیموں اور انجمنوں میں شامل ہے جنہوں نے جزیرہ نمائے عرب میں اردو کے فروغ کا بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اُردو اک تہذیب ہے اور عالمی اردو مرکز’’مہذب‘‘، اُردو اک تدریب ہے اور عالمی اردومرکز ’’مدرب‘‘،اُردو اک زباں ہے اور عالمی اردو مرکز’’زبان داں‘‘، اُردو اک جہاں ہے اور عالمی اردو مرکز ’’جہاں نما۔‘‘ پاکستان سے معروف مزاحیہ شاعر سید سلمان گیلانی عمرے کے لئے مملکت آئے تو انہیں عالمی اردو مرکز نے دعوت دی۔ احباب کو مطلع کیا اور محدود پیمانے پر جامع اور یادگار شامِ مزاح سجا دی۔مقام تھا اطہر نفیس عباسی کا مستقر، جہاں انتہائی تزک و احتشام سے مہمانوں کا استقبال کیا گیا۔حسبِ سابق اس مرتبہ بھی تلذذِ دہن کا مثالی اہتمام کیاگیا تھا۔میزبان نے ہی تقریب کی نظامت کی ذمہ داریاں بھی نبھائیں۔
تقریب کا احوال پیش ہے: عالمی اردو مرکز کے صدر اطہر نفیس عباسی نے مائیک سنبھال کرسب سے پہلے سید سلمان گیلانی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مختصر وقت میں اتنی بڑی شخصیت کو اس مختصر کاشانے میں مدعوکیا گیاجو بلا شبہ ان کے شایانِ شان نہیں۔وقت ہوتا تو عالیشان نشست کا انعقاد کیاجا سکتا تھا ۔ بہر حال وہی بات کہ ’’یار زندہ، صحبت باقی۔‘‘انہوں نے صدارت کے لئے ڈاکٹر سعید کریم بیبانی کو دعوت دی۔ شام کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا،قاری محمد آصف نے قرأت کی۔ان کے بعدقاری سیف اللہ نے سید سلمان گیلانی کی کہی ہوئی نعت طیبہ پیش کی:
لگتا ہی نہیں گھر میں مرا جی کسی صورت
پہنچا دے مدینے میں ا لٰہی کسی صورت
بستی ہے تری یاد سے بستی مرے دل کی
بستی نہ کبھی ورنہ یہ بستی کسی صورت
عالمی اردو مرکز کے جوائنٹ سیکریٹری اور مجلس اقبال کے چیئر مین عامر خورشید نے صدرِ محفل ڈاکٹر سعید کریم بیبانی کا تعارف پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر سعید کریم بیبانی بہت اچھے نعت خواں ہیں، قاری ہیں اور معالج ہیں۔ انہیں کرکٹ سے بہت شغف ہے۔ان کی شخصیت بہت متنوع ہے اور میرے لئے ممکن نہیں کہ مختص وقت میں ان کی ہستی کے تمام پہلوئوں کا احاطہ کر سکوں۔ اطہر عباسی نے اس مرحلے پر ناظر قدوائی اور حسن عسکری طارق کا ذکر کیا جو اب اس دنیا میں نہیں تاہم انہوں نے کہا کہ دونوں حضرات اردو اورطنز و مزاح کے حوالے سے اہم مقام رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے، آمین۔ ناظر قدوائی کے بارے میں فضا ء الرحمن نے کہا کہ میں 1967ء میں جب پہلی مرتبہ سعودی عرب آیا تو ہم دونوں کا ساتھ یوں بھی رہا کہ ہم نے ا یک ہی کمپنی میں کام کیا۔ اس کے علاوہ گھریلو تعلقات بھی تھے۔ ان کی ا یک پرانی نظم ہے اُس زمانے کی جب عمران خان کنوارے ہوا کرتے تھے۔ انہوں نے نظم لکھی تھی ’’اسپنر‘‘ کے نام سے۔
ایک اسپنر جو آپ ہی اپنی مثال تھا
اس فن میں اس کو واقعی حاصل کمال تھا
عزت کے ساتھ ساتھ ہی دولت ملی اسے
وہ جس کا مستحق تھا وہ عزت ملی اسے
ناظمِ شام اطہر عباسی نے محمد امانت اللہ کو دعوت دی گئی۔ انہوں نے ایک ’’فکاہیہ‘‘ پیش کیا جس کا عنوان تھا’’اخلاقی بھتہ‘‘،ان کے بعد شہزاد اعظم کو دعوت دی گئی۔انہوں نے پہلے سنجیدہ اشعار پیش کئے :
بھرم اپنائیت ایقان کیا کیا
تمنا آرزو، ارمان کیا کیا
میں سب دفتر مرتب کر رہاتھا
لٹا گھر سے مرے سامان کیا کیا
وفاداری ، ترحم ، جذبِ باہم
 سکھاتا ہے ہمیں حیوان کیاکیا
٭٭٭
احتباسی کیفیت ہے ، ناطقہ بھی بند ہے
 قوم کو ایسے میں اطریفل زمانی چاہئے
جب صفائی ہے مؤنث ، مرد مہتر کس لئے
 گھر میں جھاڑو کے لئے بھی مہترانی چاہئے
اب ذرا تھوڑی سی نثر.......... ماہرین ریختہ کا کہنا ہے کہ تابناک کا لفظ اس زمانے میں وجود میں آیا تھا جب ہندوستان میں اردوبولنے والوں پر انگریز مسلط تھا۔اسی دور میں ایک معروف شاعر انگریزخاتون باس کی نگرانی میں سرکاری خدمات پر مامور تھے۔ باس کو زکام ہوا تو اس کی ستواں ناک سرخ ہوگئی۔ شاعر موصوف اپنی باس کے جمال سے مرعوب تھے، دوست سے کہنے لگے کہ آج ہماری باس کی ناک اتنی خوبصورت لگ رہی تھی، یقین جانئے کہ مجھ میں اتنی تاب نہیں رہی تھی کہ میں اس کی ناک کوایک کے بعد دوسری نظر دیکھ سکتا۔ سنا ہے اس کے بعد شاعر سے اس کے دوست اشارتاً دریافت کیا کرتے کہ اور سنائیے ، اُس’’ تاب ناک‘‘ کا کیا حال ہے؟اسی دوران کثرتِ استعمال کے باعث ’’تابناک‘‘ کا لفظ لغت میں شامل کر لیاگیا۔‘‘ اب مہمان خصوصی سید سلمان گیلانی کو دعوت دی گئی۔موصوف کے کلام سے اقتباس:
 یہ سرخ ڈورے یہ آنکھوں کا نم بتاتا ہے
تمہیں کسی سے محبت ہے رو کے آئے ہو
٭٭٭
اچانک اس نے رُخ سے جب نقاب لفٹ کر دیا
 تو میں نے آگے بڑھ کے اپنا ہارٹ گفٹ کر دیا
٭٭٭
لاکھوں کنواری لڑکیاںمانگیں خدا سے یہ دعا
شوہر ہمیں عطا ہو وہ مکھڑا ہو جس کا بدر سا
اس کے علاوہ اس میں ہوں یہ دو صفات لازمی
رِچ ہو وہ تب کے صدر سا، چُپ ہو وہ اب کے صدر سا
٭٭٭
مری بیگم نے تھا اک چھوٹا سا پالا لیلا
سال کا ہونے کو آیا ہے وہ کالا لیلا
اس کو رکھتی ہے عزیز اپنے وہ بھائی کی طرح
 یعنی لیلے کو ہے کہتی مرا لالا لیلا
میری لیلیٰ کو بہن سمجھے نہ سمجھے لیکن
مجھ کو بہنوئی سمجھتا ہے وہ سالہ لیلا
٭٭٭
تھانہ ترا تحصیل تری، کینٹ ترا ہے
پیسہ ہو تو سب ملک ہی سرونٹ ترا ہے
کچھ حصہ تو ہے عام حسینوں کے لئے وقف
 باقی کا یہ دل نائنٹی پرسنٹ ترا ہے
لگتا ہے کہ بیگم تری پیکے میں سلمان
موڈ ان دنوں کیوں اتنا پلیزنٹ ترا ہے
٭٭٭
تنخواہ مری ساری ہی رکھ لیتی ہے پھر بھی
کہتی ہے کہ پورا مرا خرچہ نہیں ہوتا
ہم ہلکے تشدد پہ بھی ہو جاتے ہیں بدنام
وہ توڑ دے ٹانگیں بھی تو پرچہ نہیں ہوتا
صدر محفل ڈاکٹر سعید کریم بیبانی نے اپنا مزاحیہ کلام پیش کیا۔
اقتباس حاضر:
زیست کی گاڑی کے دو پہئے میاں بیوی سہی
پچھلے دو پہیوں کی بھی کچھ بات ہونی چاہئے
 دوسری شادی کی گنجائش نکلتی ہے جناب
اک سٹپنی بھی سفر میں ساتھ ہونی چاہئے
٭٭٭
شاپنگ کرنا کتنا ہے آساں عربی میں
 چیزوں کا نام کس لئے سکھلانا چاہئے
 ہر شے دکھا کے پوچھو کہ کم ہٰذا ، ہٰذا کم
بس ایک لفظ ’’ہٰذا‘‘ تمہیں آنا چاہئے
٭٭٭
اربوں کے وہ غبن میں ہوا بند جیل میں
 چھٹنے میں بس کروڑ لگا، مافی مشکلہ
 جاتا ہوں روز لیٹ میں آفس، مرا مدیر
 رہتا ہے چھٹیوں پہ سدا، مافی مشکلہ
٭٭٭
دیکھی جو سرو کرتی زنانی جہاز میں
 منگوا رہا ہے پانی پہ پانی جہاز میں

شیئر: