Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

چیف جسٹس کے اختیارات کا بل، آٹھ رکنی بینچ آج سماعت کرے گا

عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ جمعرات کو مقدمے کی سماعت کرے گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سپریم کورٹ کے اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے پر سپریم کورٹ کا 8 رکنی بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ جمعرات کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت کرے گا۔
بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری کے بعد اسے دستخط کے لیے صدر مملکت کے پاس بھیجا گیا تھا۔
تاہم صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور شدہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر دستخط نہیں کیے تھے اور اسے نظرِثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا۔
بل واپس بھیجتے ہوئے صدر عارف علوی نے کہا تھا کہ ’بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔‘
’بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس بِل کی درستی، جانچ پڑتال اور دوبارہ غور کرنے کے لیے واپس کرنا مناسب ہے۔‘
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ’آئین سپریم کورٹ کو اپیل، ایڈوائزری، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے، مجوزہ بِل آرٹیکل 184 تین، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے۔‘
تاہم حکومت نے اس بل کو دوبارہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے 10 اپریل کو منظور کروایا تھا۔

بل واپس بھیجتے ہوئے صدر عارف علوی نے کہا تھا کہ ’بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے‘ (فائل فوٹو: اے پی پی)

بل کو منظوری کے بعد دوبارہ دستخط کے لیے صدر مملکت کے پاس بھیج دیا گیا تاہم صدر نے ابھی تک اس بل پر دستخط نہیں کیے۔
مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد اگر صدر مملکت 10 روز کے اندر بل پر دستخط نہیں کرتے تو بل خود بخود قانون بن جائے گا۔
واضح رہے کہ پارلیمان سے پاس کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف تین درخواستیں دائر کی گئیں۔ درخواستوں میں پارلیمنٹ سے منظورکردہ بل کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ ’پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار نہیں۔‘
’سپریم کورٹ کے رولز 1980 میں بنے تھے جبکہ آرٹیکل 184/3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی حق نہیں دیا جا سکتا۔‘
 سپریم کورٹ سے اظہار یکجہتی کریں گے: اعتزاز احسن
ماہر قانون دان اور وکیل رہنما اعتزاز احسن نے جمعرات 13 اپریل کو صبح ساڑھے آٹھ بجے وکلا کو سپریم کورٹ آف پاکستان پہنچنے کی کال دی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ’چیف جسٹس آف پاکستان سمیت اعلی عدلیہ کے ججز کی عدالت آمد پر وکلا بھرپور یکجہتی کا اظہار کریں گے‘۔ 
پاکستان بار کا جمعرات کو عدالتوں کے بائیکاٹ کا اعلان
پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین ہارون الرشید اور چئیرمین ایگزیکٹو کمیٹی حسن رضا پاشا نے سپریم کورٹ کی جانب سے سپریم کورٹ پروسیجر اینڈ پریکٹس بل 2023 سے متعلق قانون نافذ العمل ہونے سے قبل یک طرفہ  و متنازعہ بینچ کی تشکیل اور مقدمے کو عجلت میں سماعت کے لیے مقرر کرنے کے اقدام کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے مسترد کیا ہے۔
سیکریٹری پاکستان بار کونسل کے بیان کے مطابق وکلا رہنماﺅں نے متفقہ طور پر اس اقدام کو ملک کی اعلی ترین عدالت کو تقسیم کرنے کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ’ پاکستان کی عدالتی تاریخ میں کبھی پارلیمان کی طرف سے بنائے گئے کسی قانون کو نافذ العمل ہونے سے نہیں روکا گیا‘۔
وکلارہنماﺅں نے خبردار کیا کہ’ بارکونسلز اور ایسوسی ایشنز کے مطالبے پر کی گئی اس قانون سازی کو نافذ العمل ہونے سے پہلے روکنے کی بھرپور مزاحمت کی جائے گی‘۔
بیان میں کہا گیا کہ ’اس غیرمنصفانہ اقدام کے خلاف ملک بھر کے وکلا بطور احتجاج  جمعرات 13 اپریل کو عدالتوں کا بائیکاٹ کریں گے‘۔ 
بیان میں مزید کہا گیا کہ’ پارلیمان نے یہ قانون سازی آل پاکستان وکلا کنونشن میں منظورہونے والی قرارداد کے عین مطابق کی ہے‘۔ 

شیئر: