Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اوورسیز پاکستانیوں کی ہاؤسنگ سکیموں کی تکمیل میں کیا رکاوٹیں ہیں؟

ہزاروں کی تعداد میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ہاؤسنگ سکیموں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)  
اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن کے زیراہتمام کئی برس قبل ملک بھر میں شروع کی گئی ہاؤسنگ سکیموں کے منصوبے ابھی تک نامکمل ہیں۔  
آج سے تقریباً 30 برس پہلے ان منصوبوں کا آغاز ہوا تھا لیکن بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے شروع کی گئی متعدد رہائشی سوسائٹیاں اب بھی مکمل نہیں ہیں اور کئی کے ساتھ ایسے تنازعات ہیں جس کی وجہ سے الاٹیز کی خطیر رقم کی ادائیگی کے باوجود ان کو پلاٹ نہیں مل رہے اور نہ صرف ان منصوبوں کا مستقبل بلکہ ان میں کی گئی سرمایہ کاری بھی خطرے میں ہے۔
صوبہ پنجاب کے شہر گوجر خان سے تعلق رکھنے والے راجہ کامران بھی ایک اوورسیز پاکستانی ہیں اور ایسی ہی ایک سوسائٹی میں سرمایہ کاری کے بعد انہیں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس کے بعد وہ اپنا حق لینے کے لیے کئی پلیٹ فارمز پر آواز اٹھانے پر مجبور ہوئے۔
راجہ کامران نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ’سرکاری ہاؤسنگ سوسائٹیوں کے پلاٹوں کی الاٹمنٹ میں تاخیر کے ساتھ ساتھ نجی زمینوں اور مکانوں پر قبضے کا معاملہ بھی ہے۔‘  
’30 برس گزر جانے کے باوجود اوورسیز پاکستانیز فاونڈیشن کی رہائشی سوسائٹی او پی ایف ویلی میں پانی اور بجلی کے مسائل حل نہیں کیے گئے۔ قسطوں اور سر چارج کے معاملات الگ چل رہے ہیں۔‘  
انہوں نے کہا کہ ’میرے جیسے بہت سے اوورسیز پاکستانی جن کا تعلق مختلف شہروں سے ہے، وہ اپنے سرمائے کے اس طرح پھنسنے پر سراپا احتجاج ہیں۔‘ 
ان رہائشی سکیموں کے متاثرین کے احتجاج پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیز نے بھی ان کی تکمیل میں تاخیر اور پلاٹوں کے قبضے الاٹیوں کو نہ دینے کا نوٹس لیا۔ 
کئی ایک اجلاس ہوئے، بریفنگز ہوئیں، او پی ایف انتظامیہ اور متاثرین کو ایک ساتھ بٹھایا گیا۔ اوورسیز کے وزیروں نے ان سکیموں کے دورے کیے، ترقیاتی کاموں کے جائزے لیے لیکن کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ اور بیشتر اوورسیز پاکستانی آج بھی مسائل کے حل کا انتظار کر رہے ہیں۔

ساجد طوری کے مطابق وہ ہاؤسنگ سکیموں میں ہونے والی کوتاہیوں سے آگاہ ہیں۔ (فائل فوٹو: فیس بک پیج، او پی ایف)

اوورسیز پاکستانیوں کی رہائشی سکیموں کی موجودہ صورتحال  

اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن (او پی ایف) نے بھی بیرون ملک پاکستانیوں کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک کے کئی شہروں اسلام آباد، لاہور، پشاور، گجرات، دادو، لاڑکانہ اور میرپور میں او پی ایف ہاؤسنگ سکیمز بنائی ہیں۔  
ہزاروں کی تعداد میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے ان سکیموں میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔  
مختلف شہروں میں شروع کی گئی ان سرکاری ہاؤسنگ سکیموں کی تازہ صورتحال کچھ اس طرح ہے۔

اسلام آباد او پی ایف ویلی زون فائیو سکیم    

زون فائیو جاپان روڈ پر واقع یہ سکیم پانچ ہزار کنال پر مشتمل ہے۔ یہ منصوبہ 1994 میں شروع ہوا لیکن 26 برسوں میں وہاں پر ایک گھر بھی تعمیر نہیں ہو سکا۔ 99 فیصد ترقیاتی کام مکمل ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے تاہم صرف نصف پلاٹوں کا قبضہ دیا گیا ہے۔ 
یہاں پانی کی فراہمی کے لیے چار زیر زمین اور چار اووہیڈ ٹنس بنائے گئے ہیں تاہم قبضہ مافیا کی وجہ سے پانی کے پائپ بچھانے میں مسئلہ آ رہا ہے۔ 
اسی طرح بجلی کی عارضی سپلائی کا انتطام کیا گیا ہے۔ زمین کو ہموار کرنے کا کام بھی باقی ہے۔  
سنہ 2015 میں گلبرگ گرین سے راستے کی منظوری ہوئی تھی اور اس پر کام جاری ہے۔ ہاؤسنگ سکیم کی چار دیواری پر بھی کام شروع نہیں ہوسکا۔ دو کنٹری ہومز اور ماڈرن لگژری اپارٹمنٹس کی بکنگ بھی شروع کر دی گئی ہے۔  
اس سکیم میں 100 کمرشل پلاٹوں میں ایک پلاٹ بھی کسی کو الاٹ نہیں کیا جا سکا۔  

حکام کے مطابق کچھ ہاؤسنگ سوسائٹیز میں پلاٹس اور مکانات حوالے کیے گئے ہیں۔ (فائل فوٹو)

لاہور  

لاہور میں او پی ایف کے تین ہاؤسنگ منصوبے ہیں۔ جن کو فیز ون، فیز ون ایکسٹینشن اور فیز ٹو کا نام دیا گیا ہے۔  

فیز ون  

ٹھوکر نیاز بیگ سے چھ کلومیٹر دور رائے ونڈ روڈ پر واقع یہ منصوبہ 2316 کنال پر محیط ہے۔ جو 1996 میں شروع کیا گیا اور یہ منصوبہ مکمل ہو چکا ہے۔  
اس کے 1783 میں 1735 پلاٹ الاٹ ہوئے جبکہ 48 پلاٹ خالی ہیں۔ 93 کمرشل پلاٹ بنائے گئے جن میں 24 کی الاٹمنٹ ہو چکی ہے جبکہ 69 خالی ہیں۔ 
بجلی پانی سڑکوں اور باؤنڈری وال سمیت تمام ترقیاتی کام مکمل ہیں۔ 261 گھر بن چکے ہیں جبکہ 76 زیرِ تعمیر ہیں۔ قبضہ دیے جانے کے باوجود 1600 سے زائد پلاٹوں پر مکانات بننا شروع نہیں ہوئے۔  

فیز ون ایکسٹینشن

شوکت خانم ہسپتال سے دو کلومیٹر دور رائے ونڈ روڈ پر واقع یہ منصوبہ 1990 میں شروع کیا گیا۔ 728 کنال پر محیط اس ہاؤسنگ سکیم میں بجلی اور گیس کی فراہمی کے علاوہ تمام ترقیاتی کام مکمل کر لیے گئے ہیں۔  
تمام 485 پلاٹس الاٹ کیے جا چکے ہیں تاہم ساڑھے 36 کنال کمرشل اراضی ابھی تک تجارتی مقاصد کے استعمال  کے قابل نہیں بنائی جا سکی اور نہ ہی کسی کو الاٹمنٹ ہوئی ہے۔  

فیز ٹو  

558 کنال پر مشتمل یہ منصوبہ بھی 1990 میں ہی شروع کیا گیا تھا۔ ایل ڈی اے سے فارم ہاؤسنگ کے لیے ماسٹر پلان کی منظوری حاصل کر لی گئی ہے۔  
یہاں ترقیاتی کام جاری ہیں اور منصوبے کی پلاننگ اور ڈیزائننگ مکمل کر لی گئی اور جلد ہی اس کے ٹینڈرز جاری کر دیے جائیں گے۔  
لاہور میں او پی ایف سکیموں میں عوام کو دھوکا دینے کے الزام میں نیب لاہور میں تحقیقات بھی جاری ہیں۔ 

اسلام آباد میں 99 فیصد ترقیاتی کام مکمل ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے۔ (فوٹو: او پی ایف)

پشاور   

بدھنی روڈ پشاور پر واقع 1990 میں شروع ہونے والی اس سکیم کا رقبہ 991 کنال ہے جس میں 681 رہائشی جبکہ 74 کمرشل پلاٹس رکھے گئے ہیں۔ تمام رہائشی پلاٹس الاٹ کیے جا چکے ہیں جبکہ 74 میں سے 64 تجارتی پلاٹوں کی نیلامی ہونا باقی ہے۔  
او پی ایف کے مطابق 2005 میں یہ منصوبہ مکمل ہوا تھا۔ ترقیاتی کام بھی مکمل ہیں تاہم یہاں پر سکول اور مسجد زیر تعمیر ہیں۔ اس کے علاوہ 95 گھر بھی بن چکے ہیں جبکہ 45 زیر تعمیر ہیں۔   

گجرات  

بھمبر روڈ گجرات پر 296 کنال پر مشتمل ہاؤسنگ سکیم 1987 میں شروع کی گئی اور 1995 میں مکمل ہوئی۔ 211 رہائشی جبکہ 57 کمرشل پلاٹوں کی الاٹمنٹ ہو چکی ہے۔  
یہاں پر سکول کی تعمیر جاری ہے جس کا 70 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔  

دادو  

مارو روڈ دادو پر واقع اس ہاؤسنگ سکیم کا رقبہ 168 کنال ہے۔ یہاں 404 رہائشی جبکہ 13 کمرشل پلاٹ ہیں۔ رہائشی پلاٹوں کی الاٹمنٹ تو ہو چکی ہے تاہم کمرشل پلاٹوں کی نیلامی نہیں کی جا سکی۔  
 اس سکیم میں سول ورک 2001 میں جبکہ الیکٹرکل ورک 2004 میں مکمل ہوا۔ مستقبل قریب میں یہاں پر سکول کی تعمیر شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔  

لاڑکانہ  

228 کنال پر مشتمل یہ منصوبہ 1987 میں شروع کیا گیا تھا۔ اس میں 430 رہائشی اور 24 کمرشل پلاٹس تھے جو الاٹ کیے جا چکے ہیں۔  
یہ منصوبہ 1996 میں پایہ تکمیل کو پہنچا لیکن ابھی تک صرف 200 گھر ہی بن سکے ہیں۔  

میرپور  

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے اہم شہر میرپور میں منگلہ ڈیم سے پانچ کلومیٹر دور چترپڑی کے مقام پر بنائی گئی او پی ایف ہاؤسنگ سکیم کے بھی تین فیز رکھے گئے تھے۔  
یہ منصوبہ اپریل 1981 میں شروع کیا گیا جس کا رقبہ 5710 کنال ہے۔ اس منصوبے کے 2877 رہائشی اور 187 کمرشل پلاٹس ہیں۔ 2507 رہائشی اور 106 کمرشل پلاٹوں کی الاٹمنٹ کی گئی ہے۔ 370 رہائشی اور 81 کمرشل پلاٹ خالی ہیں۔ 
تینوں فیزز میں تمام تر ترقیاتی کام مکمل ہونے کے باوجود ابھی تک صرف 15 مکان بنے ہیں جبکہ 18 زیر تعمیر ہیں۔ بڑے سکولوں کو پلاٹ لیز پر دینے، او پی ایف سکول کی تعمیر اور سوسائٹی دفتر کی تعمیر کے علاوہ 50 گھروں کی تعمیر کا منصوبہ مستقبل کے ارادوں میں شامل ہے۔ 

’الاٹیوں کی شکایات کافی حد تک جائز ہیں‘ 

الاٹیوں کی جانب سے تاخیر کی شکایت پر او پی ایف حکام کا موقف ہے کہ ان منصوبوں میں پہلے کافی تاخیر ہوئی اور الاٹیوں کی شکایات کافی حد تک جائز ہیں اور اب ان کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔  
اس صورت حال پر وفاقی وزیر برائے سمندر پار پاکستانیز ساجد طوری نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’اوورسیز پاکستانیوں کے لیے ہاؤسنگ سکیموں میں ہونے والی کوتاہیوں سے آگاہ ہیں۔ بیرون ملک دوروں کے دوران بہت جگہوں پر لوگوں نے اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔ میں نے لاہور اور اسلام آباد کی سکیموں کے دورے کیے اور متعلقہ حکام پر واضح کیا ہے کہ اب مزید تاخیر برداشت نہیں کی جائے گی۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’ان سکمیوں کو گیس، پانی اور بجلی کی فراہمی کے لیے متعلقہ اداروں کے سربراہان سے میں خود بھی رابطے کر رہا ہوں۔‘  

شیئر: