پاکستان سمیت دنیا بھر میں ریئل اسٹیٹ ایک منافع بخش کاروبار تصور کیا جاتا ہے لیکن ریئل اسٹیٹ کے شعبے میں اکثر ایسی شکایات بھی سننے کو ملتی ہیں جن میں کئی افراد اپنے سرمائے ہاتھ سے دھو بیٹھنے کا شکوہ کرتے ہیں۔
پاکستان میں اوورسیز پاکستانیز فاونڈیشن (او پی ایف) کے علاوہ متعدد نجی ہاؤسنگ سوسائیٹیز بھی بیرون ملک پاکستانیوں کو پرکشش پیکجز پر سرمایہ کاری کی پیشکش کرتی ہیں اور کئی ہاؤسنگ سوسائیٹیز نے ’اوورسیز‘ کے نام سے علٰحیدہ بلاکس بھی متعارف کروا رکھے ہیں۔
او پی ایف کی جانب سے لاہور، اسلام آباد، ملتان، دادو، سکھر، کراچی، پشاور سمیت ملک کے کئی شہروں میں ہاؤسنگ سکیمز پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان کے مختلف شہروں میں نجی سطح پر بھی کئی ہاوسنگ سوسائیٹیز متعارف ہو رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اکثر بیرون ملک پاکستانی ان سکیموں میں سرمایہ کاری سے ہچکچاتے ہیں کیونکہ ماضی میں ان کے ساتھ بہت بڑے پیمانے پر دھوکا ہو چکا ہے اور پیسے وصول کرنے کے باوجود انہیں زمین نہ دینے یا اس پر قبضہ کرنے کے کئی واقعات سامنے آ چکے ہیں۔
ہاوسنگ سوسائیٹیز میں سرمایہ کاری کرنے سے پہلے کن باتوں کا خیال رکھیں؟
اگر آپ پاکستان میں اپنے لیے پلاٹ، گھر یا ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں تو دھوکہ دہی اور فراڈ سے بچنے کے لیے چند باتوں کا ضرور خیال کریں۔
پاکستان میں ریئل اسٹیٹ کی ایک نامور اور بڑی کمپنی ’اے ٹِین‘ کے سینئیر ڈائریکٹر سیلز اینڈ مارکیٹنگ عزیر عادل نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ریئل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کر رہی ہے اور مزید لوگ بھی اس شعبے میں سرمایہ کاری کرنے یا اپنا گھر بنانے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن ان کے بہت سے خدشات بھی ہیں۔
’ہر بیرون ملک پاکستانی کا یہی سوال ہوتا ہے کہ ریئل اسٹیٹ میں دھوکے اور فراڈ سے کیسے بچیں۔'
اگر آپ نے کسی بھی ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ خریدنا ہے تو سب سے پہلے اس کی ساکھ کو دیکھنا چاہیے۔
'کتنا پرانا ڈویلپر ہے، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر کب سے ہے اور ویب سائٹ پر یو اے این نمبر ہے یا نہیں۔'
انہوں نے کہا کہ زیادہ تر لوگ موبائل نمبر یا ایجنٹ کے ذریعے رابطے کر رہے ہوتے ہیں، 'بروکر آپ کو پرُکشش پیکجز بتاتے ہیں لیکن کوشش کرنی چاہیے کہ بجائے بروکرز کے، براہ راست ڈویلپرز سے رابطہ کریں۔'
اس کے بعد جس علاقے میں ہاؤسنگ پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہے اس کی این او سی چیک کریں، 'کیا وہ متعلقہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی سے منظور شدہ ہے، سی ڈی اے، آر ڈی اے، کے ڈی اے، ایل ڈی اے وغیرہ جس علاقے میں کام ہو رہا ہے اس کی متعلقہ ادارے سے این او سی ضرور چیک کریں۔ متعلقہ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی ویب سائٹس پر تمام معلومات آپ کو مل جائیں گی کہ جن پراجیکٹس میں آپ سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں کیا اس کی این او سی اور لے آؤٹ پلان موجود ہے۔'
عزیر عادل کہتے ہیں کہ جب آپ کوئی پراپرٹی خریدنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں اور پیسے بھیجنے لگیں تو اس بات کا ضرور خیال کریں کہ آپ پیسے کس کے نام پر بھیج رہے ہیں، کیا وہ پیسے ایجنٹ کو بھیجے جا رہے ہیں؟ کمپنی کو جا رہے ہیں یا کسی تیسری پارٹی کے نام پر جا رہے ہیں؟
'جس ہاؤسنگ سوسائٹی میں پلاٹ خریدنا چاہ رہے ہیں وہاں ڈویلپمنٹ کتنی ہو چکی ہے؟'
اگر آپ خود آکر نہیں دیکھ سکتے تو اپنے کسی بھائی، رشتہ دار یا جاننے والے کو سائٹ پر ضرور بھیجیں اور دیکھیں کیا وہ زمین ڈویلپر نے خریدی ہوئی ہے یا صرف بکنگ ہی کروا رہے ہیں۔ کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ 500 پلاٹس ہوتے ہیں اور 5000 پلاٹس کی بکنگ کروا لی جاتی ہے اور بعد میں پھر زمین خرید کر دوبارہ قرعہ اندازی کا کہہ دیا جاتا ہے جس سے اگر آپ کا پلاٹ اے بلاک میں بک ہوا ہوتا ہے تو بعد میں پتا چلتا ہے اب سی بلاک میں ہو گیا ہے۔ اس لیے کسی کی ذمہ داری لگا دیں کہ ہر ماہ بعد ایک بار سائٹ جا کر ضرور دیکھے کہ اس پر کتنا کام ہو رہا ہے۔'
عزیر عادل کہتے ہیں کہ پراپرٹی خریدنے میں جلدی نہ کریں، اپنا پورا وقت لیں اور جب تک پوری تسلی نہ ہو جائے کہیں بھی سرمایہ کاری مت کریں، ’کیونکہ ایجنٹس اکثر جلد بازی کرواتے ہیں اور پرکشش پیکجز کی پیشکش کرتے ہیں لیکن جلد بازی مت کریں اپنا وقت لیں۔'
حکومتی سطح پر کیا ہو رہا ہے؟
وزارت سمندر پار پاکستانی کے حکام کے مطابق بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی بڑی شکایات پراپرٹی پر قبضہ اور دھوکہ دہی سے متعلق ہوتی ہیں اس حوالے سے سخت قوانین متعارف کروائے جا رہے ہیں تاکہ یہ مسائل جلد از جلد حل کیے جا سکیں۔
'عدالتوں میں بیرون ملک پاکستانیوں کی جائیداد پر قبضہ اور دھوکہ دہی کے حوالے سے زیر التوا مقدمات کے لیے فاسٹ ٹریک عدالتوں کی قانون سازی پر کام جاری ہے اور یہ عدالتیں خصوصی طور پر بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے جائیداد پر قبضے اور دیگر مسائل کے حل کے لیے قائم کی جائیں گی۔'
حکام کے مطابق وزارت اسلام آباد میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے ایک رہائشی سیکٹر پر بھی کام کر رہی ہے اور اس حوالے سے سی ڈی اے سے بات چیت جاری ہے۔