Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

معیشت اور صرف معیشت: ماریہ میمن کا کالم

کیا آئی ایم ایف کے ساتھ  ڈیل سے عوام کے حالات بدل جائیں گے؟ (فوٹو: اے ایف پی)
بل کلنٹن نے اپنے پہلے الیکشن میں نعرہ لگایا تھا it’s the economy stupid اس نعرے نے عوام میں مقبولیت حاصل کی اور ان کی فتح کی راہ ہموار کی۔
حکومتوں کا اصل کام عوام کے معیار زندگی کو بہتر بنانا ہوتا ہے۔ ان کے لیے سہولیات کی کم قیمت یا بغیر قیمت کے فراہمی بشمول روزگار کے مواقع کے ریاست کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے۔
تمام دنیا میں انتہاپسندی اور تشدد کی علامت نریندر مودی کی جماعت معاشی ترقی کے نام پر ووٹ حاصل کرتی ہے۔ یہی صورتحال دیگر ملکوں میں بھی ہے۔
اکثر ملکوں میں اجتجاجی تحریکیں بھی معیشت کے نام پر چلتی ہیں اور معاشی ترقی ہی سیاسی دوام کی ضمانت ہوتی ہے۔ 
ہمارے ہاں البتہ معاشی ترقی اپنے معنی ہی کھو چکی ہے۔ بیانیے، الیکشن اور انتقام کی سیاست کو قبول عام ہے اور عوام کا کوئی پرسان حال نظر نہیں آتا۔
اس عید پر پچھلی شاید کئی دہائیوں میں پہلی دفعہ ایک انتہائی مایوسی اور بد دلی دیکھی گئی۔ اس سے پہلے رمضان میں درجنوں لوگ بوری بھر آٹے کے لیے اپنی جان سے گئے-
اس کے بعد جب عید آئی تو مل بیٹھنے اور عید منانے کے وسائل ہی کم یاب رہے۔ باوجود ٹی وی چینلز کی روایتی اور بھرپور کوشش کہ لوگوں کو خوش باش خریداری میں مشغول دکھائیں، یہ حقیقت سب کے سامنے رہی کہ عید خوشیوں کے پیغام کے بجائے یاسیت اور تشویش لے کر آئی۔
اچھے بھلے گھروں میں اخراجات کی گنجائش ہی نہیں تھی اور بیچارے کم آمدنی والے طبقے کے لیے ہر دن ایک آزمائش ہے۔
باہر نکلیں تو مناسب وضع قطع کے لوگ بھکاریوں کے روپ میں نظر آتے ہیں۔ افسوس تو یہ بھی کہ آگے کوئی امید بھی نظر نہیں آتی۔
ٹی وی اور ٹویٹر کو دیکھیں تو آئی ایم ایف کے ساتھ  ڈیل ہو رہی ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ  ڈیل نہیں ہو رہی کا ہی غلغلہ ہے۔

معاشی اعشاریوں کے تخمینوں کے مطابق تو پاکستان میں معیشت کی شرح نمو صفر سے کچھ ہی اوپر رہے گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سوال یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ  ڈیل اگر ہو بھی گئی تو اس سے عوام کے حالات میں کیا تبدیلی آئے گی۔
معاشی اعشاریوں کے تخمینوں کے مطابق تو پاکستان میں معیشت کی شرح نمو بس صفر سے کچھ ہی اوپر رہے گی۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگلا برس اور اس کے بعد بھی کافی عرصے تک معیشت اسی حال میں رہنے کا امکان ہے۔ 
اب اگر ملک کے ذمہ داروں کی طرف نظر دوڑائیں تو ان کو ایک دوسرے کی جڑیں کاٹنے سے فرصت ہی نہیں ہے۔ حکومت پر ظاہر ہے سب سے زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ اس نے تجربہ کاری اور مستعدی کے دعوؤں کے ساتھ بڑے ذوق و شوق سے زمام اقتدار سنبھالی تھی۔
ان کا ذوق و شوق تو کم ہوا ہے مگر حکومت میں رہنے کی خواہش کم نہیں ہوئی۔ اگر یہ بھی فرض کر لیا جائے کہ مختلف حیلوں بہانوں اور داؤ پیچ سے وہ صوبائی الیکشن آگے لے جانے میں کامیاب بھی ہو جائے تو بھی اس کے اقتدار میں تین مہینے کا وقت ہی رہ گیا ہے۔
ایک ایسی حکومت جس کا کچھ عرصے بعد الیکشن میں جانا ہے ان کے حساب سے یہ حکومت بے دھڑک اور بے نیاز ثابت ہو رہی ہے۔ اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیوں میں بے دھڑک اور عوام کی مشکلات سے بے نیاز۔
سوال یہ ہے کہ عوام اس معاشی دباؤ کا جواب صرف الیکشن میں دیں گے یا پھر سڑکوں پر بھی آئیں گے؟
 

شیئر: