واضح رہے کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد پہلی مرتبہ پاکستان تحریک انصاف کے کسی رہنما نے باضابطہ طور پر ان کی مذمت کی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’عمران خان نے بھی 9 مئی کے واقعات کی مذمت کی ہے۔‘
پی ٹی آئی کے سینیئر نائب صدر کا کہنا تھا کہ ’پاک فوج ہے تو پاکستان ہے اور پاکستان ہے تو ہم سب ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اسی نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر ہمیں پالیسیاں بنانی چاہییں۔‘
انہوں نے 9 مئی کے واقعات کی شفاف تحقیقات کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ان واقعات میں جو بھی ملوث ہے چاہے وہ پی ٹی آئی سے ہو یا نہ ہو اسے سزا ملنی چاہیے۔‘
ایک سوال پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’مجھے اگر گرفتار کیا جاتا ہے تو میں گرفتاری دینے کے لیے تیار ہوں۔‘
اس سے قبل منگل کو ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے فواد چوہدری کی دو دن کے لیے حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو اُن کی گرفتاری سے روک دیا تھا۔
فواد چودھری کی حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے کہ ’ایڈووکیٹ جنرل سے مقدمات کی تفصیل کا پوچھا تھا۔‘
’ایڈووکیٹ جنرل نے فواد چودھری کے خلاف دو مقدمات کا بتایا تھا۔ تھری ایم پی او کے تحت گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیا گیا۔‘
عدالت نے پولیس کو فواد چودھری کی دو دن کے لیے گرفتاری سے روکتے ہوئے حفاظتی ضمانت منظور کر لی تھی۔
اس موقع پر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سینیئر نائب صدر کا کہنا تھا کہ ’ملک کا نقصان ہو رہا ہے بہتر ہے معاملہ صلح کی طرف جائے۔‘
جب اُن سے پوچھا گیا کہ ’کیا 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلائے جائیں گے تو فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’آٹھ سے دس ہزار افراد کے خلاف مقدمات کیسے چلائیں گے؟‘