Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جزیرہ نما عرب میں عربی شاعری کی قدیم تاریخ

قبل از اسلام دور کی نظمیں اکثر قصیدے کی شکل میں لکھی جاتی تھیں۔ فوٹو عرب نیوز
جزیرہ نما عرب میں اسلام کی آمد سے  قبل شاعری نے عرب معاشرے میں اہم کردار ادا کیا جو ابلاغ، تفریح ​​اور ثقافتی اظہار کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق عربی شاعری کی ایک طویل اور بھرپور تاریخ ہے جو زمانہ جاہلیت سے متعلق ہے۔  
قبل از اسلام دور کی ابتدائی نظمیں اکثر ایسی شکل میں لکھی جاتی تھیں جسے قصیدہ  کہا جاتا،اس طرز کی طویل نظم کو عام طور پر عوامی اجتماعات میں پڑھا جاتا۔

عربی شاعری کو دنیا میں عام کرنے میں سوشل میڈیا کا  اہم کردار ہے۔ فوٹو عرب نیوز

ان نظموں میں اکثر قبائلی ہیروز کی خوبیاں بیان کی جاتیں،دنیا کی قدرتی خوبصورتی بیان کی جاتی یا پھر شاعر اپنے کلام میں کسی عاشق کے غم اور خواہش کا اظہار کرتے۔
زمانہ قدیم کے معروف بازاروں میں سے ایک سوق عکاظ تھا جو طائف  شہر کے شمال مشرق میں واقع ہے۔
یہ زمانہ جاہلیت کی تین بڑی عرب مارکیٹوں میں سے ایک مانی جاتی تھی اس کے علاوہ مجنا بازار اور ذوالمزاج سوق بھی تھی۔
سوق العکاظ بنیادی طور پر خرید و فروخت کا مقامی بازار تھا جہاں پر موجود دکانوں پر قصیدے اور نظمیں لکھ کر لٹکائی جاتی تھیں جنہیں پڑھے جانے کی وجہ  سے یہاں آنے والوں میں مقبولیت حاصل ہوئی۔
مخصوص قسم کی شاعری کو اس زمانے میں انمول سمجھا جاتا تھا اور مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے باہر یا اندر یا قریبی بازاروں میں خرید وفروخت کے لیے آنے والوں کو پڑھنے کو ایسے اشعار ملتے تھے۔

خرید وفروخت کے لیے آنے والوں کو ایسے اشعار پڑھنے کو ملتے تھے۔ فوٹو عرب نیوز

اس زمانے کے معروف شاعر عمرو القیس، عمر بن کلثوم، عنطرہ بن شداد، النباء الذھبیانی، زہیر بن ابی سلمہ اور ترفہ بن العبد ہیں جن کی نظمیں یا شاعری بار بار دہرائی جانے کی وجہ سے مقبول ہوئیں۔
خالد الطویل مجلہ الیمامہ کے مصنف، صحافی اور شاعر ہیں ، انہوں نے شاعری کا مجموعہ اور ادب و ثقافت کے موضوع پر کتاب شائع کی ہے۔
انہوں نے بتایا ہے کہ سوق عکاظ  شاعری کا ممتاز مقام سمجھا جاتا تھا جہاں شاعر حضرات ہر سال مہینہ بھر کے لیے اکٹھے ہوتے، اشعار پڑھتے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اُس زمانے میں شاعری صرف عکاظ یا عرب بازاروں تک ہی محدود نہیں تھی بلکہ شاعر حضرات مختلف شہروں اور گلی کوچوں کا بھی سفر کرتے اور اس کے لیے وسیع صحراؤں کو بھی عبور کرتے۔

شاعری کی تاریخ  خطہ عرب میں مختلف ادوار تک پھیلی ہوئی ہے۔ فوٹو عرب نیوز

معروف مصنف  نے مزید بتایا کہ بعد میں آنے والی صدیوں میں عربی شاعری نئی جہت اور موضوعات کو لے کر ارتقا پذیر ہوتی رہی یہاں تک کہ یہ اپنے موجودہ نباتی انداز تک پہنچ گئی۔ 16ویں صدی سے  جزیرہ نما عرب کی زندگی میں نباتی شاعری ملتی ہے۔
ماضی کی رسمی شاعری کے برعکس نباتی غیر رسمی ہے اور اسے عربی ادب کی  خاص ترین شکل سمجھا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اسے زندگی کی روزمرہ کی حقیقت کی عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ کچھ لوگ اسے عوامی شاعری یا نظموں میں بدوئین کے انداز کے طور پر بیان کرتے ہیں۔

سوق عکاظ  شاعری کا خاص مقام تھا جہاں شاعر حضرات اکٹھے ہوتے۔ فوٹو عرب نیوز

یہ دلچسپ بات ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نشریات کے طریقے کیسے بدلے ہیں شاعر کو سننے کے لیے ایک خاص جگہ پر جمع ہونے سے لے کر مشاعروں میں شرکت تک اور اب عربی شاعری کو پوری دنیا میں عام کرنے میں سوشل میڈیا کا  اہم کردار ہے۔
شاعری پر مشتمل ڈرامے بھی عربوں میں مقبول ہیں، سٹیج پر لیلیٰ مجنون جسے احمد شوقی نے لکھا ہے اس طرح   کے قصے نظموں کے انداز میں پڑھے جاتے ہیں۔
شاعری کی تاریخ  خطہ عرب کے ابتدائی دور سے لے کر مختلف ادوار تک پھیلی ہوئی ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ یہاں کے لوگوں کے لیے شاعری کتنی اہم رہی ہے ۔
واضح رہے کہ عرب شاعروں نے اپنے کام کو محفوظ رکھنے اور نسل در نسل اسے ہمیشہ زندہ رکھنے کے بہت سے طریقے تلاش کر رکھے ہیں۔

شیئر: