جزیرہ نما عرب کے شمال مغرب میں پھیلی ہزاروں قدیم یادگاریں
جزیرہ نما عرب کے شمال مغرب میں پھیلی ہزاروں قدیم یادگاریں
بدھ 12 جنوری 2022 17:14
زمانہ قدیم میں یہاں بسنے والے فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں رہتے تھے۔ (فوٹو عرب نیوز)
العلا کے رائل کمیشن نے یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کی شراکت میں تحقیقاتی رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ زمانہ قدیم میں جزیرہ نما عرب کے شمال مغرب میں بسنے والوں نے تیسری صدی قبل مسیح کے دوران تدفین کی ہزاروں یادگاریں بنائیں۔
عرب نیوز کے مطابق جزیرہ نما عرب کے قدیم باشندوں کی زندگیوں پر تحقیقی روشنی ڈالنے کے لیے یہاں کام کرنے والی سائنسی مطالعاتی ٹیم کی جانب سے کی گئی یہ زبردست پیشرفت ہے۔
یہاں موجود نخلستانوں اور چراگاہوں کو جوڑنے والے راستے، اس علاقے کی آبادی کے درمیان اعلیٰ درجے کے سماجی و اقتصادی باہمی انحصار کی عکاسی کرتے ہیں۔
یہ آثار قدیمہ ساڑھے چارہزار سال قبل ایک بہترین سماجی نظام کے وجود کی نشاندہی کرتے ہیں جو جزیرہ نما عرب میں پھیلا ہوا تھا۔
یہ دریافت العلا کی رائل کمیشن کے ساتھ شراکت میں انسانی وجود اور اس خطے میں رہنے والے معاشروں کے اسرار کو سمجھنے میں آثار قدیمہ کے ماہرین کی مسلسل پیشرفت میں شامل ہے۔
یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کی ٹیم کا یہ کام 13 خصوصی ٹیموں کی جانب سے دنیا بھر کے ممبران کے ساتھ کی گئی وسیع کوشش کا حصہ ہے۔
سعودی عرب میں العلا اور خیبر کے قدیم علاقوں میں یہ ٹیمیں سعودی ماہرین کے تعاون سے آثار قدیمہ اور تحفظ کے مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہیں۔
رائل کمیشن العلا کے چیف ایگزیکٹو آفیسرعمرو المدنی نے بتایا ہے کہ جس طرح ہماری سائنسی مطالعاتی و تحقیقی ٹیمیں شمال مغربی علاقے کے ان قدیم باشندوں کی ذہنی صلاحیتوں کی عکاسی کرتی ہیں ہم اس سے بہت زیادہ سیکھتے ہیں اور اتنا ہی متاثر بھی ہوتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ زمانہ قدیم میں یہاں بسنے والے فطرت کے ساتھ ہم آہنگی میں رہتے تھے، اپنے پیشروؤں کی عزت کرتے تھےاور وسیع ترعلاقے میں پھیل ہوئےتھے۔
عمرو المدنی نے کہا کہ آثار قدیمہ دریافت کرنے والی ٹیموں کی جانب سے2021 میں کیے گئے اس خاص تحقیقی کام سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہم 2022 میں بھی سعودی عرب میں مزید تحقیقی اور مطالعاتی ٹیموں کی میزبانی کے منتظر ہیں۔
رائل کمیشن العلا میں آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثہ کی تحقیق کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ربیکا فوٹ نے بتایا ہے کہ ہم العلا اور خیبرمیں تین سال سے ایک منصوبے پر کام کر رہے ہیں اور یونیوسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کی آثار قدیمہ دریافت کرنے والی ٹیم نے نتائج شائع کرنا شروع کر دئیے ہیں۔
یہ تحقیقی کام ابھی آغاز پرہے جو ماقبل تاریخ کے بارے میں ہمارے علم کو جدید دور میں آگے بڑھائے گا اور وسیع تر خطے کے لیے اہم اثرات مرتب ہوں گے۔
محقق اور تاریخ دان ڈاکٹرعیدالیحییٰ نے بتایا ہے کہ اس علاقے میں موجود قبروں کے آثار دریافت ہوئے ہیں جنہیں حراۃ النار(آگ کا میدان) کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ قبریں تعمیر کے مختلف نمونوں اور مخصوص شکلوں میں ہیں۔ ان قبروں میں انسانی جسم کے آثار سے پتہ چلتا ہے کہ انہیں کس حالت میں سپرد خاک کیا گیا۔
ڈاکٹرعید الیحییٰ نے اس قدیم دور کے حوالے سے بتایا کہ یہ قبریں اس وقت بنائی گئی تھیں جب جزیرہ نما عرب بہت زرخیز تھا اور سوانا کے جنگلات کی طرح دکھائی دیتا تھا۔
قبروں کے آثار ان لوگوں کی تعمیرات کی علامت ہیں جو خوشحالی میں زندگی بسر کرتے تھے کسی بنجر علاقے یا صحرا میں نہیں رہتے تھے۔