Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ میں سکیورٹی گارڈ کی فائرنگ سے نوجوان قتل

اہلخانہ کے مطابق بینک کا عملہ دیکھتا رہا کوئی مدد کے لیے نہ آیا (فوٹو: اُرود نیوز)
جنّت خاتون جب اپنی تنخواہ لینے کی غرض سے بینک جانے کے لیے گھر سے نکلی تھیں تو اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ اُنہیں بینک سے رقم نہیں بلکہ اپنے بیٹے کی لاش ملے گی۔
یہ واقعہ جون بروز جمعہ کوئٹہ کے علاقے ارباب کرم خان روڈ پر واقع ایک نجی بینک میں پیش آیا جہاں بینک کے سکیورٹی گارڈ نے جنّت خاتون کی آنکھوں کے سامنے اُن کے جواں سالہ بیٹے کو گولی مار دی۔
پولیس نے سکیورٹی گارڈ کو گرفتار کرکے اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا ہے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ اعتراف جرم کے بعد عدالت نے ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا ہے تاہم اہلخانہ کا کہنا ہے کہ صرف سکیورٹی گارڈ ہی نہیں بلکہ بینک کے منیجر کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔
افسوسناک واقعے کے بعد سکیورٹی گارڈز کے رویوں، اضافی ڈیوٹیوں، کم تنخواہوں کے باعث اُن کی ذہنی حالت،  تربیت اور نجی سکیورٹی کمپنیوں کی جانب سے گارڈز کی بھرتیوں کے نظام پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

واقعہ کیسے پیش آیا؟

جنّت خاتون کے اہلخانہ نے اُردو نیوز کو بتایا کہ مقتول علی نواز کا تعلق غریب گھرانے سے تھا، ان کے والد علی احمد زہری خود بھی سکیورٹی گارڈ تھے۔
علی نواز ثانوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بےروزگار تھے اور کچھ عرصہ پہلے ہی ایک وکیل کے ساتھ کام کرنا شروع کیا تھا۔
علی نواز کے خالہ زاد بھائی منور احمد نے بتایا کہ ان کی خالہ جنّت خاتون محکمہ صحت میں لیڈی ہیلتھ ورکر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ ’واقعے سے ایک دن پہلے وہ چھوٹے بیٹے کے ہمراہ تنخواہ لینے بینک گئیں لیکن پورا دن انتظار کرنے کے بعد بھی انہیں اگلے دن آنے کا کہا گیا۔
اگلے روز وہ بڑے بیٹے علی نواز کو اپنے ساتھ لے گئیں تاکہ تنخواہ ملنے کے بعد بچوں کے لیے عید کے کپڑے خرید سکیں۔‘
منور احمد نے واقعے کی تفصیلات کچھ یوں بتائیں کہ ’جب دونوں ماں بیٹا بینک پہنچے تو وہاں لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا لیکن بینک کے سکیورٹی گارڈ کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔
منور احمد کے بقول ’علی نے سکیورٹی گارڈ سے درخواست کی کہ ان کی والدہ بزرگ اور بیمار ہے اور کئی کلومیٹر دور سے آئی ہے، کل بھی پورا دن دھوپ میں انتظار کرتی رہیں اور آج بھی آپ انہیں بینک کے اندر جانے نہیں دے رہے۔ مجھے بینک منیجر کو شکایت کرنی ہے۔ یہ کہہ کر علی نے اندر جانے کی کوشش کی تو سکیورٹی گارڈ نے انہیں روک دیا۔‘

 مقتول کے اہلخانہ نے نے الزام عائد کیا کہ بینک عملے اور سکیورٹی گارڈز نے واقعے کو غلط رنگ دینے کی کوشش کی (فائل فوٹو)

انہوں نے بتایا کہ علی مزاحمت کرکے جیسے ہی اندر داخل ہوا تو دروازے پر ہی دوسرے سکیورٹی گارڈ نے ان پر گولی چلا دی جس سے موقع پر ہی وہ ہلاک ہو گئے۔
منور احمد نے بتایا کہ ’سکیورٹی گارڈ نے انتہائی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ دیگر  گارڈز اور بینک کا عملہ دیکھتا رہا کسی نے اسے نہیں روکا نہ ہی علی کی مدد کے لیے آئے۔‘
سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف چند سیکنڈز میں ہوا ۔علی نواز کے بینک میں داخل ہونے کے فوراً بعد سکیورٹی گارڈ اُن پر فائرنگ کرتا ہے۔ علی نواز کی والدہ اندر آکر مدد کے لیے پکارتی ہیں۔
ایس پی سریاب ضیاء مندوخیل نے اُردو نیوز کو بتایا کہ ملزم کو گرفتار کرکے اسلحہ برآمد کر لیا گیا ہے اور اس نے مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔ ’سکیورٹی  گارڈ نے تفتیش میں قتل کی کوئی وجہ نہیں بتائی۔‘
کیس کے تفتیشی آفیسر سب انسپکٹر محمد عارف نے بتایا کہ بینک میں تین دن سے کیش نہیں تھا۔ بینک منیجر نے بتایا ہے کہ ’سٹیٹ بینک روزانہ صرف 30 سے 40 لاکھ رقم فراہم کررہا تھا۔ بینک میں تنخواہ داروں کا رش تھا اس لیے بینک منیجر نے دروازے بند کرکے گارڈز کو کسی کو اندر نہ آنے کی ہدایت کی تھی۔‘
 مقتول کے رشتہ دار منور احمد نے الزام عائد کیا کہ بینک عملے اور سکیورٹی گارڈز نے واقعے کو غلط رنگ دینے کی بھی کوشش کی۔ ’انہوں نے پولیس کو غلط اطلاع دی کہ ڈاکو مارا گیا۔ سی سی ٹی وی فوٹیج نہ ہوتی تو علی کو ڈاکو قرار دے کر کیس پر پردہ بھی ڈال دیتے۔‘
بینک کو سیکورٹی فراہم کرنے والی ایس او ایس کمپنی کے ایک عہدے دار نے مجاز نہ ہونے کی صورت میں نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر اُردو نیوز کو بتایا کہ علی نواز نے بینک کا شیشہ توڑا، سکیورٹی گارڈ سمجھا کہ ڈاکوؤں نے حملہ کیا ہے‘ تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ سکیورٹی گارڈ نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنی غلطی کا اعتراف کیا ہے کہ اس نے کچھ سوچھے سمجھے بغیر اسلحہ چلایا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ’تحقیقات کی جا رہی ہیں کہ بینک کا شیشہ کہیں قتل کے واقعے کے بعد تو نہیں توڑا گیا تاکہ گارڈ کی غلطی کو چُھپایا جا سکے۔‘
کمپنی کے عہدے دار کا دعویٰ ہے کہ گرفتار گارڈ تربیت یافتہ تھا اور 2016ء سے کمپنی سے وابستہ تھا اس کا کوئی منفی ریکارڈ بھی نہیں۔

اہلخانہ کا کہنا ہے کہ صرف سکیورٹی گارڈ ہی نہیں بلکہ بینک کے منیجر کے خلاف بھی کارروائی کی جائے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

سیکورٹی گارڈز کی تربیت کا فقدان

معمولی تکرار پر ایک نہتے شہری کو گولی مارنے کے اس واقعے نے کئی سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔
کیا عوامی مقامات پر تعینات سکیورٹی اہلکار تربیت یافتہ ہوتے ہیں؟ کیا انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ شہریوں کے ساتھ کیسے پیش آنا ہے؟ اگر شہری مشتعل ہو جائیں تو ایسے میں اُنہیں کیسے معاملے کو سُلجھانا چاہیے؟
کوئٹہ میں بطورمحافظ خدمات سرانجام دینے والے عبدالقادر نے بتایا کہ انہوں نے پانچ سال تک مختلف کمپنیوں میں کام کیا لیکن اس دوران کسی بھی کمپنی نے انہیں کوئی تربیت فراہم نہیں کی۔ ’صرف زبانی طور پر تلاشی لینے اور ڈاکوؤں کے حملے کی صورت میں احتیاطی تدابیر بتائی گئیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سکیورٹی کمپنیوں کو اہلیت نہیں کم تنخواہ لینے والے لوگ چاہیے ہوتے ہیں۔ کمپنیاں کسی بھی ضرورت مند کو وردی پہنا کر اور اسلحہ تھما کر ڈیوٹی پر بھیج دیتی ہیں۔‘
عبدالقادر کا کہنا ہے کہ گارڈز سے بارہ گھنٹے سے زائد کی ڈیوٹی لی جاتی ہے اور ہفتہ تو دور مہینے میں بھی کوئی چھٹی نہیں ملتی۔ ’عید کی چھٹی کرنے پر بھی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے، اضافی وقت ڈیوٹی کرنے کی کوئی اجرت نہیں دی جاتی۔‘
اُن کے بقول لمبی ڈیوٹیوں، کم تنخواہوں اور چھٹیاں نہ ہونے کی وجہ سے مہنگائی سے پریشان سکیورٹی گارڈز ذہنی دباؤ کا شکار رہتے ہیں۔
’ہسپتالوں، سکولوں، بینکوں اور دیگر عوامی مقامات پر تعینات سکیورٹی گارڈز کے ساتھ بعض لوگوں کا رویہ بھی توہین آمیز ہوتا ہے۔ یہ تمام عوامل سیکورٹی گارڈز کی ذہنی حالت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ ان کے پاس لوڈڈ اسلحہ ہوتا ہے ایسے میں وہ معمولی بات پر بھی غصے میں آکر انتہائی قدم ا’ٹھا لیتے ہیں۔‘

پولیس نے سکیورٹی گارڈ کو گرفتار کرکے اس کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا۔ (فائل فوٹو)

آل پاکستان سیکورٹی ایجنسیز ایسوسی ایشن (اے پی ایس اے اے ) کے چیئرمین کرنل ریٹائرڈ توقیر السلام نے اس بات کا اعتراف کیا کہ ’گلی کوچوں میں دفاتر کھول کر بننے والی چھوٹی سکیورٹی  کمپنیوں میں سکیورٹی گارڈز کی تربیت کا فقدان ہے۔‘
ان کے بقول ایسا حکومت بلوچستان کی پالیسی کی وجہ سے ہے جس نے سکیورٹی کمپنیوں کے لائسنس کے لیے معیار کو یقینی نہیں بنایا۔ ’ملی بھگت سے این او سی لے کر راتوں رات کمپنی بنالی جاتی ہے اور رجسٹریشن نہیں کرائی جاتی۔‘
کرنل ریٹائرڈ توقیر السلام نے بتایا کہ ایسوسی ایشن سے 300 سے زائد کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جو سخت کوڈ آف کنڈیکٹ کی پابند ہیں۔ ’ہم نے گارڈز کی جسمانی و ذہنی تربیت، کوائف کی جانچ پڑتال اور حکومتی مقرر کردہ حد کے مطابق تنخواہ کی فراہمی کو لازمی قرار دیا ہے اس لیےچھوٹی کمپنیاں ہم سے رجسٹریشن کرانے سے کتراتی ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’بلوچستان میں ہمارے ساتھ صرف وہ کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں جو ملک کے باقی صوبوں میں بھی کام کرتی ہیں۔‘
کرنل ریٹائرڈ توقیر السلام نے مزید بتایا کہ لاہور اور کراچی میں نجی سیکورٹی کمپنیوں کے گارڈز کی تربیت کے لیے باقاعدہ ٹریننگ سکول ہے لیکن بلوچستان میں ایک بھی نہیں۔
انہوں نے مطالبہ کیا کہ ’بلوچستان حکومت سکیورٹی کمپنیوں کے لائسنس کے اجراء کے عمل کو سخت کرے تاکہ سکیورٹی گارڈز کو تربیت اور انہیں سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔‘

شیئر: