Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جمہوریت بند گلی میں: ماریہ میمن کا کالم

عمران خان چاہے اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر، انہوں نے گزشتہ کافی عرصے سے سیاست کا رخ متعین کیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
موجودہ سال کا پہلا ہاف سیاسی طور پر ہنگامہ خیز ثابت ہوا ہے۔ سیاسی پارٹیوں کے عروج و زوال اور سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں اور رہائی ہمارے ہاں معمول ہے مگر اب یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ یہ سال جمہوریت کے لیے نقصان دہ اور پُرخطر ثابت ہوا ہے۔
اس وقت نہ صرف دو صوبوں میں مقررہ انتخابات کی تاریخ گزر چکی ہے بلکہ اس کے ساتھ باقی دو صوبوں اور وفاق میں اکتوبر کے مقررہ انتخابات پر بھی شکوک و شبہات کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔
ملک میں سیاسی جماعتوں کی شکست و ریخت اب معمول ہے اور ملک کی بڑی سیاسی جماعت پر پابندی کا بھی تاثر سامنے آ رہا ہے۔ اس وقت کچھ اور نہیں بلکہ خوف زدہ جمہوریت بند گلی میں ہے۔
سوال یہ ہے کہ جمہوریت اس بند گلی تک پہنچی کیسے؟ 
چیئرمین پی ٹی آئی اور سابق وزیراعظم عمران خان چاہے اقتدار میں ہوں یا اقتدار سے باہر، انہوں نے گزشتہ کافی عرصے سے سیاست کا رخ متعین کیا ہے۔ ان کے سیاسی فیصلے دلیرانہ اور بے باک مشہور ہیں۔ ان کی اسی بے باکی اور پُرخطر طرز سیاست نے ان کے ووٹر کو ان کے ساتھ جوڑ کر رکھا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ رسک لینے میں وہ بہت آگے نکل گئے۔ ان کے سینیئر رہنماؤں نے ان کو قومی اسمبلی سے استعفی نہ دینے کا مشورہ دیا مگر وہ بضد رہے۔ اس کے بعد آج کے دن تک بھی ان کے حامی اور غیر جانبدار تجزیہ کار دونوں صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کا سیاسی فائدہ دیکھنے سے قاصر ہیں۔
آئینی طور پر یہ پی ٹی آئی کا اختیار تھا مگر سیاسی طور پر اس ہائی رسک سٹریٹیجی کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ 

یہ سال جمہوریت کے لیے نقصان دہ اور پُرخطر ثابت ہوا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد ان کو ایک اور بلکہ آخری موقعہ حکومت کے ساتھ الیکشن کی تاریخ پر مذاکرات کی صورت ملا۔ پی ٹی آئی کے اپنے ذرائع کے مطابق حکومت یکم جولائی کو اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ پر متقفق ہو چکی تھی کہ عمران خان کی ہدایت پر مذاکرات ختم کر دیے گئے۔ اگر اس وقت انتخابات کی تاریخ پر اتفاق ہوتا تو حکومت کے اختیار میں واضح کمی آتی اور معاملات بجٹ کے بعد انتخابات کی طرف چل پڑتے۔
عمران خان کی سوچ کے مطابق حکومت اپنے وعدے سے پھر جاتی، مگر اس پر یہ کہا جا سکتا ہے اس صورت میں بھی ان کا بیانیہ مضبوط ہوتا اور دوسری طرف ایک الیکشن کا ماحول بنتا اور اس طرح کے حالات نہ ہوتے جو بعد میں ہوئے اور جس کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ پی ٹی آئی کو الیکشن تاریخ پھر بھی نہیں ملی اور یکم جولائی کی تاریخ بھی گذر جائے گی۔ 
عمران خان کے سیاسی فیصلوں پر کئی سوالیہ نشان ہو سکتے ہیں مگر پرانی جمہوری قوتوں بشمول بڑی پارٹیوں پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے علاوہ دیگر پارٹیوں کی طرف سے بھی غیر جمہوری رویوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔
صوبائی انتخابات کی تاریخ پر ان کے کمزور موقف کے بعد اپنے مخالف سیاسی قوتوں کے خلاف حکومتی مشینری کو بھی انہوں نے اسی طرح استعمال کیا جس کی وہ خود شکایت کرتے رہے ہیں۔ دونوں جماعتوں کی طرف سے دبی دبی آوازیں کبھی آتی ہیں کہ سیاسی جماعتوں پر پابندی وغیرہ درست نہیں مگر انتقام کے نعروں میں فورا ہی بالکل دب جاتی ہیں۔
رائے عامہ پر پابندیاں ہوں یا عدالتی فیصلوں کا احترام، پی پی پی اور ن لیگ کا سکور کارڈ بھی اتنا ہی رنگین ہے جتنا ان کے سیاسی مخالفوں کا رہا ہے۔ ان پرانی اور جمہوریت کی دعوے دار سیاسی جماعتوں کا آخری امتحان انتخابات کے انعقاد پر ہو گا۔ اگر افواہوں کے مطابق وہ انتخابات کو آگے لے جانے میں فریق بنے تو ان کے جمہوری رویوں پر رہا سہا اعتماد بھی ہوا ہو جائے گا۔ 

پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے علاوہ دیگر پارٹیوں کی طرف سے بھی غیر جمہوری رویوں کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

جمہوریت پر اس ملک کی اساس ہے اور جمہوریت کا سب سے بڑا تحفہ ایک متفقہ آئین ہے۔ دونوں سے رُو گردانی کی صورت میں جو مسائل پیدا ہوں گے ملک ان کا متحمل نہیں ہو سکتا خصوصاً اس وقت جب معاشی حالات بھی دِگر گُوں ہیں۔
جمہوری روایات کی پاسداری جمہوری قوتوں کو کرنا پڑتی ہے چاہے اس میں ان کا بظاہر نقصان ہی ہو۔ بدقسمتی سے ہمارے سیاست دانوں کو اقتدار سے تو ہاتھ دھونا پڑتے مگر اس کے ساتھ ان کا اپوزیشن میں رہنا بھی مشکل کر دیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس میں ان کا زیادہ کردار ہے جو آج بھگت رہے ہیں اور جو کل بھگت رہے تھے آج وہ اس کے ذمہ دار ہیں۔
سوال البتہ یہ ہے کہ یہ vicious cycle کب ختم ہو گا اور جمہوریت اس بند گلی سے کیسے نکلے گی؟

شیئر: