Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی ذہن پر انمٹ نقوش ثبت کرنے والا ’’ماحول‘‘

امریکہ میں مقیم پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے بچوں میں کزنز کے درمیان شادیاں ہوتی ہیں تو یہ بات ان کے لئے حیران کن ہوتی ہے
- - - - - - - - -  -
اُم دانیال۔ امریکہ
 - - - - - - - - - - -
انسان پر ماحول کا اثر اور ماحول پر انسان کی حرکات و سکنات کا اثر ہر دور میں سائنسدانوں، محققین اور علمائے کرام کا موضوع رہا ہے، ارتقاء پر بھی بہت سی کتابیں لکھی اور پڑھی جاچکی ہیں مگر آج ہم ’’طویل مدتی ارتقاء ‘‘ کی بات نہیں کرتے ۔ایک چھوٹی سی زندگی میں جو کہ ان آنکھوں نے دیکھی سنی، اس دنیا میں رہتے ہوئے محسوس کی، وہ آپ سے شیئر کرنا چاہتی ہوں۔ ہم کہیں شادی میں مدعو تھے ، بڑا خوبصورت اور خوابناک ماحول تھا۔ لڑکیاں، خواتین زرق برق ملبوسات میں ادھر سے اُدھر ہنستی مسکراتی گزر رہی تھیں۔ حضرات اور خواتین ترتیب سے لگی گول میزوں کے گرد براجمان تھے۔ خوبصورت، نازک ظروف میزوں پر سجے ہوئے تھے۔ ہر طرف خوبصورت، رنگ برنگے پردے لہرا رہے تھے۔ چمکتے دمکتے ڈیکوریشن پیس ،گل اور گلدستے اپنی بہار دکھا رہے تھے۔ دولہا، دلہن کی تو کیا بات تھی، مہینوں سے اس تقریب میں کیا پہننا ہے، کیسے تصویر لینی ہے، کہاں بیٹھنا ہے، کیسے اٹھنا ہے، ان سب کی تیاری کی جاتی ہے،بحث و تمحیص کا سلسلہ جاری رہتاہے۔ یہ بات صد فیصد درست ہے کہ شادی، انتہائی خوشی کا دن ہوتا ہے، ٹھیک ہے لیکن اس کو اتناعالیشان انداز میں منانے کی کیا ضرورت ہے؟ خوشی منایئے، دل کھول کر منائیے لیکن ہر قدم پر یہ تھیم وہ تھیم ، اس کی کیا ضرورت ہے۔ اتنا خوابناک ماحول بنا دیاجاتا ہے ۔
اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ شادی جو کہ ایک لڑکے اور لڑکی کے درمیان ایک پیمان ہے، عہد ہے، سمجھوتہ ہے ایک ساتھ زندگی گزارنے کا، یہ ایک حقیقت ہے لیکن تقریب کو اتنا خوابناک بنا دینا بہر حال مناسب نہیں۔ اس کا اثر یہ پڑتا ہے کہ جس بندھن میں لڑکا لڑکی بندھتے ہیں ،جب اس کی حقیقتیں سامنے آتی ہیں تو وہ برداشت نہیں کر پاتے کیونکہ وہ آنے والی زندگی کو بھی اسی خواب کے انداز میں گزارنے کا سوچ لیتے ہیں ۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے۔ ہم بات کررہے تھے کہ اس شادی میں دولہا اور دلہن آپس میں کزنز تھے۔ ہمارے معاشرے میں یا یوں کہہ لیں کہ ہمارے بڑے بوڑھے ، تو برصغیر پاک و ہند میں بلکہ دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی کزنز کی ایک دوسرے سے شادیاںعام رواج رہا ہے لیکن امریکی معاشرے میں ’’کزنز میرج‘‘یعنی ’’عمزادکی عمزادی‘‘ سے شادی روایات کا حصہ نہیں اسی لئے شاید اس نوجوان کو ہم نے یہ کہتے سنا کہ ’’ہاؤ کین دے ڈو دِس‘‘ یعنی ’’وہ ایسا کرسکتے ہیں؟‘‘ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ امریکی معاشرے میں عام طور پر کزنز آپس میں شادی نہیں کرتے اس لئے ہمارے ہاں کے بچے جب اپنے دوستوں میں جاتے ہیں تو انہیں یہ کہتے ہوئے جھجک محسوس ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کزن ہیں یا ان کے سوالوں کے جواب نہیں دے پاتے چنانچہ بچے التجاکے انداز میں کہتے ہیں کہ ہمیں ایسا کرنے کے لئے نہ کہئے گا۔ بات یہ ہے کہ یہ کسی روایت یا اصول کی بات نہیں بلکہ محض امریکی کلچر یا ماحول کا اثر ہے اور یہ حقیقت ناقابلِ تردید ہے کہ انسان جس ماحول میں پرورش پاتا ہے ، اسکا اثرذہن پر انمٹ نقوش ثبت کر دیتا ہے ۔
ہم امریکہ میں اپنے بچوں کودینی تعلیم تو دیتے ہیں، انہیں بتاتے ہیں کہ بحیثیت مسلمان ہمارے فرائض کیا ہیں اور بچے بڑی خوشدلی سے مذہبی فرائض انجام دیتے ہیں لیکن جب انہیں یہ بتایا جاتا ہے کہ نہ صرف پاکستان اور ہندوستان میں بلکہ یہاں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں اور ہندوستانیوں کے بچوں میں کزنز کے درمیان شادیاں ہوتی ہیں تو یہ بات ان کے لئے حیران کن ہوتی ہے ۔ مسیحیوں میں بھی کزن میں شادی منع نہیں ۔ 100 سال یا 200 سال پہلے یہاں بھی کزنز میںشادیاں ہوتی تھی لیکن یہاں بھی لوگ کتابیں پڑھنے کے باوجود اسی تعلیم پر عمل کرتے ہیں جو مسیحی اسکالرزانہیں دیتے ہیں۔ یہ ایسا رواج ہے جو امریکی معاشرے میں جڑ پکڑچکاہے اور لوگ اس مذہب کی طرح اس کی پیروی کرتے ہیں۔ بس اس بات نے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ ماحول جہاں آپ پل بڑھ رہے ہوتے ہیں، وہاں آپ کے اطراف میں جو کچھ ہورہا ہوتا ہے، اس کا آپ شعوری یا لاشعوری طورپر اثر لیتے ہیں ۔یہ لاشعوری طور پر آپ کے فیصلوں پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ایسی چھوٹی بڑی کتنی ہی مثالیں ہیں۔ ہم نے وہ بزرگ دیکھے ہیں جو دسترخوان پر کھانا آجانے کے باوجود پہلے آپ، پہلے آپ پر اصرار کرتے تھے اور آج ان کی تیسری نسل کو یہ کہتے سنتے ہیں کہ کھانے کی ٹیبل کے قریب بیٹھوتاکہ کھانا لینے میں آسانی ہو ۔
یہ لوگ کھانا لگتے ہی دوسروں کا انتظار کئے بغیر ، جلدی جلدی کرنے لگتے ہیں۔ ہم نے وہ بہوئیں بھی دیکھی ہیں جو میکے پر سسرال کو فوقیت دیتی ہیں۔ اگرسسرال اور میکے دونوں میں ایک ہی دن تقاریب ہوتیں تو وہ قاصد کو یہ کہہ کر واپس روانہ کردیتی تھیں کہ سسرا ل کی تقریب میں موجود ہونا میری ذمہ داری اور خوشی ہے۔ میکے والوں سے میری طرف سے معذرت کردینا۔ ایسی بھی خواتین ہوا کرتی تھیں کہ شوہر سے تعلقات قائم نہ رہنے کے باوجودبچوں کو ددھیال میں لئے بیٹھی رہتی تھیں تاکہ بچوں کا ددھیال سے تعلق مضبوط رہے، ان کی پہچان قائم رہے جبکہ آج ایسی بہوئیں بھی ہیں جو نہ خود اچھا یا برا کوئی تعلق برقراررکھنا چاہتی ہیں اور نہ بچوں کی تربیت اس نہج پر کرتی ہیں کہ ان کی نظروں میں ددھیال کی کوئی اہمیت باقی رہے۔ ہم نے معاشرے میں وہ لوگ بھی دیکھے ہیں جن کے آباء واجداد آپ آپ کرکے بات کرتے تھے۔ ہر کسی کی غلطی کودرگزر کردیتے تھے۔ تو تڑاق سے بات کرنا بدتہذیبی سمجھی جاتی تھی اور آج وہ لوگ جا بجا موجود ہیں جو راستے میں ذرا سی ٹکر پر گاڑی سے اتر کر لڑنے مرنے پر تیار ہوجاتے ہیں۔ ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو روزمرہ زندگی میں نظر آتی ہیں۔ آپ بھی کہیں گے کہ اس سب میں نیا کیا ہے؟ نیا کچھ نہیں، پرانی باتیں دہرانا چاہتی ہوںتاکہ اس حقیقت کا اعادہ ہو سکے کہ تبدیلی ہر معاشرے کا لازمی جز ہے۔ آپ تبدیلی کو روک نہیں سکتے لیکن گزارش ہے کہ آپ اپنی اقدار کو صرف اسلئے نہ چھوڑیں کہ یہ ’’آؤٹ آف ڈیٹ‘‘ یعنی ’’از کارِ رفتہ‘‘قسم کی ہیں۔ نئی روایات یا رواج اپناتے ہوئے کسی کی اندھا دھند تقلید نہ کریں۔ نئی چیز اپناتے ہوئے یہ ضرور دیکھ لیں کہ کیا آپ کا مذہب اس امر کی اجازت دیتا ہے؟یا رہے کہ ہر نئی، پرانی چیز کو ساتھ لے کر چلنا ایک اچھے اور کامیاب معاشرے کا مزاج ہوتاہے، اس کی خوبصورتی ہوتی ہے۔

شیئر: