پیداوار کے بڑے دعوے لیکن آخر بجلی جا کہاں رہی ہے؟
پیداوار کے بڑے دعوے لیکن آخر بجلی جا کہاں رہی ہے؟
پیر 3 جولائی 2023 10:04
عطا الرحمٰن -اردو نیوز، اسلام آباد
حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار 516 میگاواٹ ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
عرصہ دراز سے جاری لوڈشیڈنگ نے عید کا مزہ بھی کرکرا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور کئی علاقوں میں آنکھ مچولی چلتی رہی۔
لیکن بجلی کا بحران قابو میں کیوں نہیں آ رہا؟ شارٹ فال کتنا ہے؟ بل دینے والے علاقوں میں لوڈشیڈنگ کیوں ہو رہی ہے؟
شارٹ فال کتنا ہے؟
پاور ڈویژن کے حالیہ اعداد و شمار کے مطابق ملک بھر میں بجلی کا شارٹ فال چھ ہزار 516 میگاواٹ ہے۔ بجلی کی مجموعی پیداوار 21 ہزار 484 میگاواٹ ہے اور طلب 28 ہزار میگاواٹ تک ہے۔
پاور ڈویژن کے مطابق ملک میں پن بجلی کی پیداوارسات ہزار 73 میگاواٹ ہے اور سرکاری تھرمل پاور پلانٹس 956 میگاواٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ نجی شعبے کے بجلی گھروں کی پیداوار آٹھ ہزار 9 سو میگاواٹ ہے۔
ونڈ پاور پلانٹس سے پیداوار ایک ہزار ایک سو 19 میگاواٹ ہے جبکہ دیگر سولر بجلی گھروں کی پیداوار 120 میگاواٹ ہے۔ بگاس سے 152 میگاواٹ بجلی پیدا کی جا رہی ہے اور نیوکلیئر پاور پلانٹس کی پیداوار تین ہزار ایک سو 64 میگاواٹ ہے۔
بجلی کی چوری اور ترسیل کے نظام میں مسائل
وزارت توانائی کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ شارٹ فال روز کی بنیاد پر ہوتا ہے جیسے کل چھ ہزار دو سو 39 میگا واٹ تھی اور آج چھ ہزار ایک سو 68 ہے۔
ان کے مطابق ’ملک میں مجموعی طور پر سالانہ دو سو 30 ارب روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے اور مختلف ریجنز میں اس کی شرح مختلف ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سندھ اور خیبرپختونخوا میں بڑے پیمانے پر بجلی چوری ہو رہی ہے۔
’گرمی شروع ہونے کے بعد بجلی اس لیے غائب ہوتی ہے کہ اس کی طلب بڑھ جاتی ہے جبکہ پیداوار کم ہوتی ہے۔ لوڈشیڈنگ کی دوسری اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہمارا ڈسٹری بیوشن سسٹم اس قابل نہیں کہ جتنی طلب ہے سسٹم اسے برداشت کر سکے۔ جیسے اب ہمیں 26 ہزار میگاواٹ بجلی کی ضرورت ہے لیکن ہمارا سسٹم 24 ہزار سے زیادہ پیداوار کو سپورٹ نہیں کر سکتا۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ متاثرہ وہ علاقے ہیں جہاں بجلی چوری زیادہ ہوتی ہے یا لوگ بل نہیں دیتے جبکہ کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں 50 فیصد لوگ بل دیتے ہیں وہاں بھی بجلی بند کی جاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’کچھ لوڈشیڈنگ لوڈ مینیجمنٹ کی وجہ سے ہوتی ہے یعنی اگر کسی علاقے میں تین ہزار میگاواٹ کی طلب ہے اور اس کے لیے 25 سو میگاواٹ بجلی مختص ہے تو 500 میگاواٹ کا یہ خلا پھر لوڈشیڈنگ سے پورا کیا جاتا ہے۔‘
’ بجلی کی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے‘
صحافی خلیق کیانی کا کہنا ہے کہ ملک 40 ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن سسٹم میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اضافی بجلی برداشت کر سکے۔
سینئر صحافی ریاض تیہیم بھی خلیق کیانی سے اتفاق کرتے ہیں اور لوڈ شیڈنگ کو مس مینجمنٹ قرار دیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’وزارت توانائی کی بدانتظامی کی وجہ سے نیلم جہلم پاور بجلی گھر بند پڑا ہوا ہے۔ وزارت توانائی مس مینجمنٹ پر خاموش ہے جس کی وجہ سے دن بدن بجلی کی صورتحال خراب ہوتی جا رہی ہے۔‘
پشاور کے سینیئر صحافی محمود جان بابر صارفین کی جانب سے بجلی کا بل نہ ادا کرنے کی وجہ کو سیاسی مقاصد اور حکومتی ناکامی تصور کرتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت کو جہاں سے بل ملتا ہے لے لیتی ہے، جہاں سے نہیں ملتا خاموشی سے چھوڑ دیتی ہے۔ پی ٹی آئی حکام سابق قبائلی علاقوں میں فی گھر سات سو روپے مقرر کر رہے تھے لیکن اس پر بھی لوگ راضی نہیں تھے۔ کچھ سیاسی لوگ بھی اپنے ووٹ بینک کی وجہ سے اس معاملے پر خاموش ہیں۔‘
انہوں نے کہا اگر حکومت اس معاملے کو سنجیدگی سے لے تو نہ صرف سب لوگوں سے بل وصول کیے جا سکتے ہیں بلکہ بجلی کے دیگر مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
اردو نیوز نے وفاقی وزیرتوانائی خرم دستگیر سے متعدد بار موقف لینے کی کوشش لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں ملا۔