دو خاندانوں کے آٹھ بچے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو گئے۔ (فوٹو: ریسکیو 1122)
خیبر پختونخوا کے ضلع شانگلہ کی تحصیل مارتونگ میں ایک مقولہ مشہور ہے کہ ’موت سے مارتونگ بہتر ہے۔‘ بتایا جاتا ہے کہ پرانے وقتوں میں تین بھائیوں نے ضلع شانگلہ کے تین مقامات بشمول تحصیل مارتونگ، تحصیل چکیسر اور شاہ پور کا بٹوارہ کرنے کا ارادہ کیا۔
چکیسر اور شاہ پور کی زمین قدرے بہتر تھی جو دو بڑے بھائیوں نے اپنے لیے منتخب کی جبکہ مارتونگ کی زمین بنجر اور ریتلی ہونے کے باوجود چھوٹے بھائی کے حصے میں آئی۔ چھوٹے بھائی نے یہ حصہ لینے سے انکار کیا تو دونوں بڑے بھائیوں نے دھمکی دی کہ انکار کرنے پر اسے مار دیا جائے گا۔ چھوٹے بھائی نے بنجر حصہ قبول کرتے ہوئے کہا ’موت سے مارتونگ بہتر ہے۔‘
تحصیل مارتونگ کا یہ پورا علاقہ ریت کے پہاڑوں سے مالا مال ہے۔ یہاں ہر جگہ ریت پائی جاتی ہے جو تعمیراتی کاموں میں استعمال ہوتی ہے۔ چونکہ ریتلی زمین پر کھدائی آسان ہوتی ہے اس لیے یہاں قبروں کی کھدائی میں زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ اس آسانی کے پیش نظر اب مشہور مقبولہ تبدیل ہو کر ’موت کے لئے مارتونگ بہتر ہے‘ کی شکل اختیار کر گیا ہے۔
جمعرات کو مارتونگ کے کھیل کے میدان میں چھوٹی سی پہاڑی کے قریب چند بچے کھیل کود میں مصروف تھے کہ اچانک ان پر ریت کا تودہ آن گرا۔ تودے کے نیچے 9 بچے دب گئے تھے جن میں سے ایک بچے کو بچا لیا گیا تاہم دو خاندانوں کے آٹھ بچے ملبے تلے دب کر ہلاک ہو گئے۔
عینی شاہد محمد مسعود نے اردو نیوز کو بتایا کہ دو دن قبل اسی مقام پر ہیوی مشینری کے ذریعے کھدائی کی گئی تھی اور ریت نکال کر یہاں ڈھیر بنایا گیا تھا۔
’کل میں چھ بجکر 20 منٹ پر گھر سے نکلا تو سامنے حادثے والے مقام پر چند بچے کھیل کود میں مصروف تھے جبکہ اوپر سے ریت کے ذرات گر رہے تھے۔ لہٰذا میں انہیں آواز دینے ہی والا تھا کہ ریت کا ایک بڑا تودہ اچانک ان پر گر گیا اور وہاں موجود تمام بچے اس کے نیچے دب گئے۔‘
ریسکیو عمل میں حصہ لینے والے سماجی کارکن عارف منصوری نے اردو نیوز کو بتایا کہ مقامی لوگ بچوں کو ملبے سے نکالنے کی کوششیں تو کر رہے تھے لیکن ملبہ اس قدر زیادہ تھا کہ کدال یا بیلچے کی مدد سے ہٹانا ممکن نہیں تھا۔
تحصیل پورن کے میونسپل آفیسر مارتونگ کا اضافی چارج بھی سنبھال رہے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ لاشوں کو ملبے سے نکالنے کے لیے ایکسکیویٹر کا انتظام تحصیل میونسپل اتھارٹی نے کیا تھا۔
’ٹی ایم اے کا سارا عملہ جائے وقوعہ پر موجود تھا اور رات کو آپریشن کے لئے روشنیوں کا انتظام بھی ٹی ایم اے کی جانب سے کیا گیا تاہم مقامی لوگوں کے مطابق کئی گھنٹے گزرنے کے باجود ریسکیو ٹیمیں نہیں پہنچ سکی تھیں جبکہ تحصیل انتظامیہ بھی غائب تھی۔‘
دوسری جانب ریسکیو ترجمان کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایسے حادثات سے نمٹنے کے لیے اوزار کی شدید قلت ہے۔
اس وقت مارتونگ میں سوگ کا سماں ہے۔ لوگ غم سے نڈھال ہیں۔ مقامی لوگ اس حادثے کو بد ترین سانحہ قرار دے رہے ہیں۔
مقامی لوگوں کے مطابق عوامی غفلت کے ساتھ ساتھ غیر قانونی سینڈ مائننگ کی وجہ سے یہ حادثہ پیش آیا ہے۔
سماجی کارکن عارف منصوری کے مطابق جہاں یہ حادثہ پیش آیا یہ زمین سابق ایم پی اے فضل اللہ پیر محمد خان کے خاندان نے لیز پر لی تھی جس کے بعد یہاں سے ریت نکال کر فروخت کی جاتی تھی۔
’اس مقام کےنچلے حصے کو ریت نکالنے کی غرض سے کھودا گیا تھا اور اوپر پہاڑ چھتری کی شکل اختیار کر گیا تھا۔‘
اس حوالے سے جب سابق ایم پی اے فضل اللہ پیر محمد خان سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا ’ہم نے علاقہ پٹواری سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہماری زمین جائے وقوعہ سے تین سو میٹر فاصلے پر ہے۔‘
مقامی افراد کا کہنا ہے کہ سینڈ مائننگ کے حوالے سے یہاں کوئی قانون سازی نہیں کی گئی ہے۔ لوگ حفاظتی اقدامات کو پس پشت ڈال کر غیر پیشہ ورانہ طریقے سے ریت نکالتے ہیں جس کی وجہ سے اب اس علاقے میں کئی ایسے خطرناک مقامات موجود ہیں جو مستقبل میں اسی طرح کے سانحے کا سبب بن سکتے ہیں۔
سابقہ صوبائی اسمبلی میں شانگلہ کے ایم پی اے فیصل زیب خان کا کہنا ہے کہ انہوں نے بطور صوبائی نمائندے غیر قانونی سینڈ مائنگ کے لیے آواز اٹھائی تھی۔
’میں نے اس حوالے سے کردار ادا کیا تھا لیکن ہم اپوزیشن میں تھے اور حکومت مان نہیں رہی تھی۔ میں نے اسمبلی میں مائنگ کے بارے میں دو توجہ دلاؤ نوٹس بھی پیش کیے ہیں لیکن حکومتی سطح پر اس کی روک تھام نہ ہو سکی۔‘