کہتے ہیں کہ قیمتی چیزیں بھی اگراصلی جگہ یا مقام پر نظر نہ آئے اور ادھر ادھر پڑی ملیں تو بالعموم انہیں معمولی ، سستا یا بیکار سمجھ لیا جاتا ہے اور شاید یہی وہ نفسیاتی غلط فہمی تھی جس میں مبتلا ہوکرایک مقامی خاتون نے جب اپنی گاڑی کی ڈکی میں ایک ہیرا دیکھا تو اسے ایسا ہی معمولی یا مصنوعی سمجھ لیا تاہم اسکی چمک ایسی تھی کہ وہ اسے اٹھائے بغیر نہ رہ سکیں۔ بعد میں جب انہوں نے کچھ لوگوں کو اسے دکھایا اور جیولرز کے پاس گئیں تو اندازہ ہوا کہ وہ جس چیز کو معمولی سمجھ رہی تھیں وہ انتہائی غیر معمولی قسم کا ہیرا ہے ۔ جس کا سائز نہ صرف غیر معمولی ہے بلکہ اسکی رنگ اور تراش بھی اپنی انفرادیت رکھتی ہے۔ مزید معلومات کرنے سے ہیرے کی مزید خصوصیات سامنے آئیں اور پتہ چلا کہ یہ ہیرا 19ویں صدی میں تراشا گیا تھا۔خاتون نے پہلی نظر میںاس ہیرے کو معمولی اس لئے بھی سمجھا کہ پرانے زمانے میں ہیروں کو اس طرح تراشا نہیں جاتا تھا جس طرح آج کل تراشا جاتا ہے ۔ جب کوئی گاہک ملتا تھا اور وہ اپنی پسند سے اسے استعمال کرناچاہتا تھا تو اسی کے مطابق اسے ترشواتا تھا۔یعنی اس وقت ہیرے کی بیرونی سطح کی میلی کچیلی پرت کو تراشا نہیں جاتا تھا جبکہ اسے تراشے بغیر ہیرے ہی نہیں بلکہ کسی بھی پتھر کا اندرونی جوہر نہیں کھلتا اوریہ معلوم نہیں ہوتا کہ اسکی حقیقت کیاہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت یہ ہیرا جس شخص کے پاس ہے اس نے سب سے پہلے ہیرا اٹھانے والی خاتون سے محض 10پونڈ میں سے خریدا تھا۔ اب اسکی قیمت لاکھوں میں ہے اور جلد ہی برطانیہ کے مشہور جواہرات جیسکا وینڈام نامی جیولری ڈپارٹمنٹل اسٹورکے چیف ایگزیکٹیو کی نگرانی میں سوتبھی نیلام گھر میں فروخت ہونے جارہا ہے اور اسکی ابتدائی قیمت ساڑھے 3لاکھ پونڈ لگنے کی امید ہے۔ یہ اتنا گرانقدر اور اعلیٰ قسم کا ہیرا ہے کہ اچھے متمول گھرانے بھی اسے خریدنے کے متحمل نہیں ہوسکتے۔اسکے لئے بے پناہ دولت کی ضرورت ہے۔گزشتہ 30برس تک یہ ہیرا اسکی موجودہ مالکن کی انگوٹھی میں نصب رہا ہے۔