Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ڈالر ایک دن میں ساڑھے تین روپے مہنگا کیوں ہوا؟

معاشی ماہرین ڈالر کی قیمت میں اضافے کو درست قرار دے رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)
سیاسی نمبر گیم یا کرنسی مافیا کے مارکیٹ میں مضبوط پنجے، آئی ایم ایف سے معاہدے کی منظوری پر انٹربینک میں ڈالر کی قیمت میں اچانک کمی کے بعد منگل کے روز ایک ہی دن میں ڈالر ساڑھے تین روپے مہنگا ہو کر 283 روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔
معاشی ماہرین ڈالر کی قیمت میں اضافے کو درست قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے معاملات طے ہونے کے بعد ڈالر کی قیمت میں ایک دم کمی ہونے کا نتیجہ اسی صورت نکلنا تھا، کیونکہ آئی ایم ایف سے پیسے ملنے اور دوست ممالک کے تعاون کے باوجود پاکستان کا قرض ادا کرنے کا شارٹ فال اپنی جگہ موجود ہے۔ ایسے میں سخت شرائط پر قرضہ ملنے کے بعد امپورٹ کھلنے سے ملک میں آنے والے ڈالر تیزی سے باہر جارہے ہیں۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق کاروباری ہفتے کے دوسرے روز منگل کو انٹربینک مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر کی قیمت 3 روپے 78 پیسے اضافے کے ساتھ 283 روپے 4 پیسے کی سطح پر ریکارڈ کی گئی ہے۔
ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈالر کی قیمت میں اضافہ لازمی ہونا تھا کیونکہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے سے معاہدہ طے ہونے کے بعد جس طرح مارکیٹ نیچے آئی ہے وہ طریقہ درست نہیں تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اسے سیاسی نمبر گیم کہیں یا پھر مارکیٹ میں مضبوط پنجے جمائے بیٹھا کرنسی مافیا کہیں، ڈالر کے تیزی سے اتار چڑھاؤ سے کچھ لوگوں کو فائدہ ہوا ہوگا، لیکن ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ تیزی سے ڈالر کی قیمت کا کم ہونا یا بڑھنا یہ سرمایہ کاروں کو پریشان کرتا ہے۔ اچانک قیمتوں کے بڑھنے اور کم ہونے سے ناصرف سرمایہ کار کا اعتماد ٹوٹتا ہے بلکہ اس کے لیے اپنے طے شدہ معاہدوں کو پورا کرنا بھی مشکل ہوجاتا ہے۔‘
’آئی ایم ایف سے ڈیل فائنل ہونے پر پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں دو سے تین روپے کمی آنا چاہیے تھی کیونکہ دوست ممالک سے تعاون کے باوجود بھی پاکستان کو ادائیگیوں کے لیے شارٹ فال کا سامنا ہے، تاہم عید کی تعطیلات کے بعد اچانک ڈالر کی قیمت انٹربینک اور اوپن مارکیٹ دونوں میں تیزی سے نیچے آئی، کچھ دن تو مارکیٹ پریشر برداشت کرسکی، لیکن اب ایک بار پھر روپے کی قدر میں کمی دیکھی جارہی ہے۔‘
ظفر پراچہ کے مطابق ’پاکستانی روپے کو سٹاک مارکیٹ کی ایک کمپنی کے طور پر چلایا جارہا ہے۔ ایک روز قیمت گرتی ہے تو دوسرے روز بڑھ جاتی ہے جو ملک کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔‘

ظفر پراچہ کے مطابق ’آئی ایم ایف کی امپورٹ کھولنے کی شرط سسٹم کو متاثر کررہی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’آئی ایم ایف کی یوں تو کئی سخت شرائط ہیں، لیکن اس میں امپورٹ کھولنے کی شرط سسٹم کو متاثر کررہی ہے۔ امپورٹ میں نرمی کرنے سے پرائیویٹ بینکوں میں ڈالر کی طلب بڑھی ہے اور مارکیٹ میں ڈالر کی کمی ہو رہی ہے۔ ملک سے ڈالر تیزی سے باہر جانے پر روپے پر دباؤ پڑ رہا ہے۔‘
سینیئر صحافی اور معاشی امور کے ماہر حارث ضمیر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پاکستان کے لیے آنے والے دن مزید سخت نظر آرہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض سخت شرائط پر ملا ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی معاشی مشکلات میں کمی نہیں ہورہی۔ کچھ وقت کے لیے ریلیف ضرور ملا ہے، لیکن مستقل حل اپنی آمدنی بڑھانے میں ہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’بیرون ممالک سے ترسیلات زر اور برآمدات میں کمی ایک بڑا مسئلہ ہے جس کو حل کرنے کے لیے پاکستان کو اقدامات کرنا ہوں گے۔ جب تک آمدنی اور اخراجات کا توازن برقرار نہیں رکھا جائے گا اس وقت تک معاشی صورت حال کا بہتر ہونا ممکن نہیں ہے۔‘

شیئر: