Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

2018 کے الیکشن نے انتخابی سیاست کی روایت کو کیسے تبدیل کر کے رکھ دیا؟

دو پارٹی سسٹم ٹوٹنے کے حوالے سے 25 جولائی 2018 کے انتخابات کی خصوصی اہمیت ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پانچ برس قبل آج کے دن ہونے والے انتخابات نے ماضی کی انتخابی سیاست کی روایت اور رجحان کو تبدیل کر کے رکھ دیا تھا۔
پاکستان میں تین دہائیوں سے رائج دو پارٹی سسٹم کے ٹوٹنے کے حوالے سے بھی 25 جولائی 2018 کے انتخابات کی خصوصی اہمیت ہے۔ تنازعات میں گھرے ان انتخابات نے دو جماعتی نظام کا خاتمہ کر کے ایک تیسری قوت کے اقتدار کی راہ ہموار کی تھی، مگر اس کا دورانیہ بہت مختصر ثابت ہوا۔ 
ان انتخابات کے پانچ برسوں بعد کے سیاسی حالات اور اگلے الیکشن کے تناظر میں کچھ بنیادی سوالات پاکستان میں دو جماعتی نظام کے خاتمے اور تیسری قوت کے ابھرنے کی بحث کو سمجھنے میں مدد دے سکتے ہیں۔
پہلا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے سیاسی نظام میں تیسری قوت کا ظہور عارضی تھا؟
اس کے ساتھ ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ 2018 کے الیکشن سے دو جماعتی نظام کے ٹوٹنے کا تسلسل کیوں برقرار نہ رہ سکا؟ اور آنے والے انتخابات دو جماعتی نظام کے حوالے سے گزشتہ سے کتنے اور کیسے مختلف ہو سکتے ہیں ؟
دو جماعتی نظام کیا ہے؟
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 2002 میں بننے والی حکومت کو چھوڑ کر گزشتہ تین دہائیوں سے دو جماعتیں باری باری برسر اقتدار آتی رہی ہیں۔
اسی روایت نے ہمارے سیاسی کلچر کی مخصوص ساخت کو جنم دیا جس کے زیر اثر ملک میں سیاسی موضوعات اور مہم جوئی کی تشکیل و ترتیب ہوتی رہی۔
پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے گرد گھومنے والے سیاسی نظام کو علاقائی اور مذہبی جماعتیں چیلنج کرنے کے بجائے اس کے ایک حصے دار کے طور پر موجود رہیں۔

2018 کے انتخابات میں تیسری سیاسی قوت ابھر کر سامنے آئی۔ فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کے علاوہ دو جماعتی نظام امریکہ، برطانیہ، کینیڈا اور کسی حد تک ہندوستان میں دہائیوں سے چلا آ رہا ہے۔ امریکہ اور کینیڈا میں پارٹی سے زیادہ ایشوز پر موقف سیاسی حمایت اور مخالفت کا باعث بنتا ہے۔ 
پاکستان کے معروف سیاسی مفکر ڈاکٹر محمد وسیم ’سٹیٹ ایلیٹ‘ اور ’سیاسی ایلیٹ‘ کی کشمکش کو سیاسی قوتوں کے بننے اور ٹوٹنے کی وجہ قرار دیتے ہیں۔
ان کی کتاب ’پولیٹیکل کنفلکٹ ان پاکستان‘ کے مطابق پاکستان میں سیاسی قوتیں دو طرح کی حکمت عملی سے اقتدار میں آتی رہی ہیں۔
پہلی قسم موبلائزنگ کی حکمت عملی ہے جسے پیپلز پارٹی اور نیشنل عوامی پارٹی نے 1970 کے انتخابات میں اختیار کیا۔
ڈاکٹر وسیم کے مطابق پاکستان تحریک انصاف نے بھی گزشتہ انتخابات میں موبیلائزنگ کی حکمت عملی اختیار کی مگر سٹیٹس کو برقرار رکھنے کے لیے انہوں نے دوسری قسم ’چیزنگ‘ کی حکمت عملی اختیار کر کے سمجھوتے کی راہ نکال لی۔
کیا دو جماعتی نظام ٹوٹ گیا ہے؟
گزشتہ الیکشن میں جو دو جماعتی نظام کے برعکس ایک تیسری قوت کے اقتدار میں آنے سے دو پارٹی نظام کی شکست و ریخت کے اثار پیدا ہوئے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد اس تبدیلی کا مستقبل کیا ہے۔ اس بارے میں سیاسی مفکرین اور تجزیہ نگاروں کی آراء بھی منقسم نظر آتی ہے۔
پاکستان کی سیاست کی سماجی حرکیات پر گہری نظر رکھنے والے ضیغم خان کے خیال میں دو جماعتی نظام میں پڑنے والی دراڑیں اب پُر نہیں ہو سکتیں۔ پی ٹی آئی کی تقسیم کے باوجود پاکستانی سیاست میں تیسری قوت کے امکانات اور قبولیت کے رجحانات موجود ہیں۔

2002 کے علاوہ تین دہائیوں سے دو جماعتیں باری باری برسر اقتدار آتی رہیں۔ فوٹو: اے ایف پی

اردو نیوز سے خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف کے بحران کا شکار ہونے سے فی الوقت دو جماعتی نظام واپس آ گیا ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ پی ٹی آئی ایک سیاسی قوت کے طور پر میدان میں موجود نہیں رہے گی۔ البتہ 9 مئی کے واقعات نے اسے انتخابات کے حوالے سے غیر متعلق اور  غیر موثر کر دیا ہے۔
ضیغم خان کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن 20ویں صدی کی جماعتیں ہیں۔ وہ نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ نہیں کر سکیں۔ اس وقت ملک میں 21ویں صدی کی ضرورتوں کے لیے ایک سیاسی قوت کی گنجائش موجود ہے۔
پاکستان کے دو جماعتی نظام کے حوالے سے انتخابی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی احمد اعجاز مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق دو پارٹی سسٹم کو چلتا رہنا چاہیے۔ اس کے کچھ فوائد ہمارے سیاسی نظام کی مضبوطی کا باعث ہیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مسلم لیگ ق، پیپلز پارٹی کا باغی دھڑا، بی اے پی، ایم کیو ایم، پاک سرزمین پارٹی اور دیگر گروپ ایک خاص وقت کے لیے سیاسی منظر نامے پر ابھرتے اور غائب ہوتے رہے ہیں۔
ملک کی دو مقبول اور بڑی سیاسی جماعتوں کو انتخابی اور حکومتی حوالوں سے میدان سے باہر کرنے کی کوششیں ہوئیں مگر کچھ عرصے بعد ان کی واپسی کے عمل کو نہیں روکا جا سکا۔
احمد اعجاز کے خیال میں دو پارٹی سسٹم کا تعلق موروثی سیاست کے ساتھ ہے، اس پر تنقید بھی کی جاتی ہے مگر بہت سارے حوالوں سے یہ ہمارے سیاسی کلچر کی مضبوطی اور بچت کا باعث بھی ہے۔
انہوں نے پنجاب کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ اگر پنجاب میں موروثی سیاست مضبوط نہ ہوتی تو یہ اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ چلا جاتا۔ اس کے برعکس بلوچستان میں اس طرح کی سیاسی موروثیت نہ ہونے کی وجہ سے سیاست کو کہیں اور سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
اپنے موقف کے حق میں دلیل دیتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ موروثی سیاست کو بچانے کے لیے جب یہ جماعتیں مزاحمت کرتی ہیں تو وہ درحقیقت غیر سیاسی قوتوں کو ایک خاص حد سے اگے بڑھنے سے روکتی بھی ہیں۔

گزشتہ انتخابات میں 1.67 ملین ووٹ مسترد ہوئے تھے۔ فوٹو: اے ایف پی

آئندہ الیکشن گزشتہ جیسے یا مختلف 
2018 کے انتخابات کے نتائج سے جنم لینے والی تلخی اور تقسیم پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت کے بہت سارے اقدامات اور واقعات سے جھلکتی رہی ہے۔
ایسے میں جب نئے الیکشن کے اثار اور تذکرے سیاسی مباحث کا حصہ ہیں، ماضی اور مستقبل کے انتخابات کی مماثلت اور مختلف ہونے کا بنیادی سوال اپنی جگہ موجود ہے۔
ضیغم خان کے مطابق موجودہ حالات میں آئندہ الیکشن ماضی سے بہت زیادہ مختلف نظر نہیں آ رہے، پہلے بھی تنازعات کی نذر ہو گئے تھے اور لگتا ہے کہ آنے والوں پر بھی تنازعات کا سایہ ہوگا۔
گزشتہ الیکشن میں انتخابی نتائج کی برق رفتاری سے منتقلی کے لیے بنائے گئے نظام آر ٹی ایس سسٹم کے فلاپ ہونے پر اپوزیشن جماعتوں کو سب سے زیادہ اعتراض رہا ہے۔
انتخابی عملے کی کارکردگی اور غیر جانبداری پر بھی سوالیہ نشانات اٹھتے رہے جس میں مسترد شدہ ووٹوں کی بھاری تعداد نے شکوک و شبہات کو جنم دیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ انتخابات میں 1.67 ملین ووٹ مسترد ہوئے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے 169 حلقے ایسے تھے جہاں ہار اور جیت کا فرق مسترد ہونے والے ووٹوں سے کم تھا۔
الیکشن کے حوالے سے قانونی، انتظامی اور تکنیکی خرابیوں کہ تدارک کے لیے ایاز صادق کی قیادت میں پارلیمنٹ کی انتخابی اصلاحات کی خصوصی کمیٹی نے ساری سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے اصلاحات کے ایک ایجنڈے پر اتفاق رائے کیا ہے۔
حالیہ دنوں میں ایاز صادق نے ایک انٹرویو میں اس کی تفصیلات بیان کی ہیں جس کے مطابق اب پریزائڈنگ آفیسر مکمل فارم 45 الیکٹرانک طریقہ کار سے ریٹرننگ افسر کو بھیجے گا۔
نتائج موصول ہونے میں تاخیر کا سد باب کرنے کے لیے الیکشن والے روز رات 12 بجے تک رزلٹ کا یقینی پہنچنا ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اگلے دن دوپہر 12 بجے تک آنے والے نتائج کی تاخیر کی وجوہات پیش کرنا انتخابی عمے کے ذمے ہوگا۔

آر ٹی ایس سسٹم کے فلاپ ہونے پر اپوزیشن کو سب سے زیادہ اعتراض رہا۔ فوٹو: اے ایف پی

الیکشن اصلاحات کمیٹی کے چیئرمین ایاز صادق کے مطابق انتخابی عذرداری کے لیے قائم ٹریبونل کی سربراہی ریٹائرڈ ججز کے ذمے ہوتی تھی جو کہ اپنی مراعات اور اہمیت برقرار رکھنے کے لیے اسے طول دیتے رہتے تھے، اب کمیٹی نے یہ تجویز کیا ہے کہ ٹریوینل کے سربراہ حاضر سروس ججز کو بنایا جائے تاکہ وہ جلد از جلد اسے نمٹا سکیں۔
اسی طرح اعلٰی عدلیہ کے لیے الیکشن کے کیسز کا چھ مہینے میں نپٹانا ضروری قرار دیا جائے گا۔
گزشتہ پانچ برسوں میں پاکستانی سیاست میں کہیں اتار چڑھاؤ اور انہونیاں ہوتی دیکھی ہیں۔ ملک کی دو بڑی سیاسی قوتوں کے درمیان گزشتہ 15 ماہ کے دوران سیاسی قربت اور مفاہمت دیکھنے کو ملی، اس کی بنیاد پر دو پارٹی سسٹم کا ایک بالکل نیا پہلو سامنے آیا ہے۔
ان سیاسی جماعتوں کی ہم آہنگی آنے والے انتخابات میں کسی تیسری قوت کا راستہ روکنے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں، اس کا فیصلہ الیکشن کے لیے ہونے والی صف بندی ،نئی قائم ہونے والی جماعتوں کی حکمت عملی اور غیر سیاسی قوتوں کی رضامندی پر منحصر ہوگا۔

شیئر: