Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بزنجو کی’سرخ جھنڈی‘، جام کا ’گرین سگنل‘: بلوچستان میں کیا ہونے جا رہا ہے؟

حالیہ ہفتوں میں سابق صدر آصف علی زرداری سیاسی رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔ (فائل فوٹو)
پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی اگرچہ وفاق میں اتحادی ہیں مگر آئندہ انتخابات سے قبل دونوں جماعتوں میں زیادہ سے زیادہ الیکٹ ایبلز کو اپنا حصہ بنانے کی دوڑ لگی ہے۔ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے بلوچستان میں بھی آئندہ حکومت بنانے کے لیے کوششیں تیز کر دی ہیں۔
سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کی سربراہی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے کئی ارکان اسمبلی اور الیکٹ ایبلز کے ایک بڑے گروپ کی مسلم لیگ ن کے ساتھ معاملات طے پا گئے ہیں۔
کئی ارکان اسمبلیوں کی شمولیت کی شکل میں ابتدائی کامیابیوں کے بعد پیپلز پارٹی کی کوششوں کو دھچکا لگا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے اپنی جماعت کو برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
تجزیہ کار آئندہ عام انتخابات میں بلوچستان کی بلوچ پشتون قوم پرست جماعتوں کی پوزیشن کمزور جبکہ جمعیت علما اسلام کی پوزیشن کو مستحکم قرار دے رہے ہیں۔
جام کمال کے قریبی ذرائع نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی ہے کہ گزشتہ ماہ مریم نواز سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے اور جام کمال نے بلوچستان عوامی پارٹی اور بعض دوسری جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اپنے ہم خیال ارکان اسمبلی اور الیکٹ ایبلز کے ساتھ آئندہ چند دنوں میں مسلم لیگ ن میں باقاعدہ شمولیت کا فیصلہ کیا ہے۔
مسلم لیگ ن کے بلوچستان میں صدر شیخ جعفر خان مندوخیل نے بھی اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ’کئی ارکان اسمبلی اور اہم سیاسی رہنما جلد مسلم لیگ ن میں شمولیت اختیار کریں گے ان میں جام کمال خان بھی شامل ہوں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم پرانے دوست ہیں پہلے بھی بلوچستان میں ایک ساتھ رہے ہیں اور حکومت اور صوبے کے معاملات چلاتے رہے ہیں اور آئندہ بھی انشاء اللہ ہماری حکومت بنے گی۔‘
جام کمال خان اس سے پہلے بھی ن لیگ کا حصہ رہ چکے ہیں وہ 2013 سے 2018 تک میاں نواز شریف اور شاہد خان عباسی کی کابینہ میں وزیر مملکت اور وفاقی وزیر رہ چکے ہیں۔ 2018 میں انہوں نے ن لیگ چھوڑ کر منحرف اراکین کے ساتھ مل کر بلوچستان عوامی پارٹی کی بنیاد رکھی اور اس کے پہلے صدر بنے۔

ذرائع کے مطابق جام کمال کی مریم نواز سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ ن کی قیادت کے ساتھ بات چیت میں پیش رفت ہوئی ہے۔ (فوٹو: ن لیگ ٹوئٹر)

جام کمال 2018 کے انتخابات کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان بنے تاہم اکتوبر2021 میں انہیں اپنی ہی جماعت سے تعلق رکھنے والے سپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالقدوس بزنجو کی بغاوت کے نتیجے میں وزارت اعلیٰ سے ہاتھ دھونا پڑا۔ تب سے بلوچستان عوامی پارٹی دو واضح گروپوں میں تقسیم ہو گئی۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی و تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کے مطابق جام کمال اور سینیٹر انوار الحق کاکڑ جیسے لوگوں کا جھکاؤ ن لیگ کی طرف ہے اور لگتا ہے کہ ن لیگ بھی انہیں لینا چاہتی ہے۔ اگست کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں ایک بڑا گروپ ن لیگ میں شمولیت اختیار کرنے جا رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ پہلے کچھ لوگوں کو لگ رہا تھا کہ بلوچستان میں آئندہ حکومت پیپلز پارٹی بنائے گی اس لیے دھڑا دھڑ لوگ شامل ہو رہے تھے اب شاید انہیں حالات مختلف لگ رہے ہیں اور پیپلز پارٹی کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں تو وہ ن لیگ کی طرف رخ کر رہے ہیں۔
’ہوسکتا ہے کہ پیپلز پارٹی میں حال ہی میں شامل ہونے والے کچھ لوگ بھی واپس ن لیگ میں چلے جائیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے عددی اکثریت کی بجائے اس بات کی اہمیت رہی ہے کہ مرکز میں کس کی حکومت بنتی ہے۔‘
2008 میں پی پی کے سات آٹھ جبکہ ق لیگ کے 22 ارکان تھے لیکن وزیراعلٰی پیپلز پارٹی کا بنا-
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق باپ پارٹی کے دوسرے گروپ کی قیادت چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کررہے ہیں۔ ’یہ وہ گروپ ہے جو پہلے پیپلز پارٹی کے لیے راستہ بنا رہے تھے اب معاملات نہ بن پانے کی وجہ سے دوسری طرف دیکھ رہے ہیں۔‘

جام کمال 2018 کے انتخابات کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان بنے۔ (فوٹو: اے پی پی)

خیال رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے گذشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کے قائد سابق صدر آصف علی زرداری کے نام ایک خط لکھ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت سے معذرت کی ہے۔
خط میں انہوں نے کہا کہ ’میرے لئے یہ امر باعث مسرت و اطمینان ہے کہ ہمارے درمیان باہمی تکریم و تعظیم پر مبنی گرم جوش ذاتی تعلقات عرصہ دراز سے قائم ہیں، میری ذاتی خواہش تھی کہ پیپلزپارٹی جوائن کروں۔‘
خط میں انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت سے معذرت کا ذکر کیے بغیر وضاحت کی ہے کہ ’بلوچستان عوامی پارٹی آئندہ عام انتخابات میں بھرپور انداز میں حصہ لے گی تاہم باہمی گفت و شنید اور اشتراک و تعاون کے دروازے کھلے رہیں گے۔‘
قدوس بزنجو کی جانب سے آصف علی زرداری کے نام خط پر پیپلز پارٹی نے نا پسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق ڈپٹی چیئرمین سینٹ صابر بلوچ کا کہنا ہے کہ ’عبدالقدوس بزنجو نے خود پیپلز پارٹی میں شمولیت کی درخواست کی تھی۔ آصف زرداری نے ایسی خواہش کا اظہار نہیں کیا تھا۔ عبدالقدوس بزنجو آصف علی زرداری زرداری کو خط لکھتے وقت ہوش میں نہیں ہوں گے۔‘
صابر بلوچ کے مطابق بزنجو کی اپنی پارٹی کے اندر کتنی سنی جاتی ہیں سب کو معلوم ہے۔ ’زرداری بلوچستان کے عوام کے مزاج کو سمجھتے ہیں انتخابات میں پیپلز پارٹی فتح حاصل کرے گی۔‘
پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر چنگیز جمالی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کی (بزنجو اور زرداری) کی آپس میں بات تھی میرے خیال سے خط لکھنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
انہوں نے دعویٰ کیا کہ خط عبدالقدوس بزنجو کا اپنا بھی نہیں بلکہ ان سے کسی اور نے لکھوایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلو چستان عوامی پارٹی کے بہت سے رہنما آصف علی زرداری کے قریبی تھے۔

وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو نے سابق صدر آصف علی زرداری کے نام خط لکھ کر پیپلز پارٹی میں شمولیت سے معذرت کی ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

’زرداری صاحب نے مشکل وقت میں ان کا ساتھ دیا ۔اب جو انہوں نے کیا ہے یہ ان کی اپنی سیاسی کم نصیبی ہے اس کا انہیں سیاسی خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔‘
چنگیز جمالی کے مطابق قدوس بزنجو نے اپنے آپ کو ختم کر دیا ہے۔ ’وہ میڈیکل ٹریٹمنٹ پر ہے اور ان کا کوئی سیاسی مستقبل نظر نہیں آرہا۔ پیپلز پارٹی کا بلوچستان میں مستقبل روشن ہے صوبے کا آئندہ وزیراعلیٰ جیالا ہی ہو گا۔‘
تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کہتے ہیں کہ ’عبدالقدوس بزنجو نے پیپلز پارٹی میں شمولیت کی یقین دہانی کرائی تھی اوراب انہیں سرخ جھنڈی دکھا دی ہے۔ تاہم بزنجو نے خط میں جو بات کہی وہ فون پر بھی بتائی جا سکتی تھی۔‘
ان کے بقول صادق سنجرانی کو کوششوں کے باوجود زرداری سے ملاقات کا وقت نہیں ملا۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ عبدالقدوس بزنجو سے یہ خط بھی انہوں نے ہی لکھوایا ہے۔
 20 جولائی کو آصف زرداری کے نام خط کے بعد 22 جولائی کو کوئٹہ میں بلوچستان عوامی پارٹی کا مشاورتی اجلاس بھی ہوا جس میں اعلان کیا گیا کہ بی اے پی اپنی الگ شناخت برقرار رکھتے ہوئے آئندہ انتخابات میں حصہ لے گی۔
اس مشاورتی اجلاس میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، سپیکر بلوچستان اسمبلی جان جمالی، قومی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر خالد حسین مگسی، سینیٹر منظور کاکڑ، سینیٹر پرنس عمر احمد زئی، صوبائی وزراء سردار صالح بھوتانی، لالہ رشید بلوچ اور دیگر رہنماء شریک تھے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کا مستقبل کیا ہوگا؟

مارچ 2018 میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق کے ارکان اسمبلی نے بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے جماعت بنانے کا اعلان کیا۔ صرف چند ماہ قبل بننے والی یہ جولائی 2018 کے عام انتخابات میں بلوچستان میں سب سے زیادہ 24 نشستیں حاصل کرنے والی جماعت بنی تاہم بعد میں بلوچستان عوامی پارٹی دھڑے بندی کا شکار ہو گئی اور اس کے کئی رہنما پارٹی چھوڑ گئے۔
کوئٹہ میں ایک ٹی وی چینل کے بیورو چیف سینیئر تجزیہ کار عرفان سعید کے مطابق سابق وزیراعلیٰ جام کمال خان کے ساتھ بی اے پی کے اہم رہنما سینیٹر انوار کاکڑ اور سینیٹر سرفراز بگٹی بھی پارٹی چھوڑ سکتے ہیں۔
ان کے بقول اختلافات اور کئی اہم رہنماؤں کے پارٹی چھوڑنے کے باوجود بلوچستان عوامی پارٹی اپنا وجود برقرار رکھ سکتی ہے کیونکہ چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی، وزیراعلیٰ قدوس بزنجو ،سپیکر جان جمالی اور کئی سینیٹرز اور صوبائی وزراء پر مشتمل ایک گروپ اپنی اس الگ شناخت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے۔
ان کا خیال ہے کہ قومی سطح کی بڑی جماعتوں میں شامل ہو کر اختیار انہیں دینے کی بجائے اپنے فیصلے خود کرنے چاہییں۔

باپ پارٹی کے دوسرے گروپ کی قیادت چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی اور وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کررہے ہیں۔ (فوٹو: اے پی پی)

عرفان سعید کے مطابق گزشتہ انتخابات میں بی اے پی بلوچستان اسمبلی کی 24 نشستیں حاصل کر کے صوبے کی سب سے بڑی جماعت بنی لیکن اس بار شاید اس کی پارلیمانی قوت اتنی زیادہ نہ ہو۔
تجزیہ کار شہزداہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ ’بی اے پی کسی نظریے پر نہیں بنی تھی سب کو معلوم ہے کہ کس طرح الیکٹ ایبلز کو جمع کرکے 2018ء کے انتخابات سے قبل راتوں رات ایک جماعت بنائی گئی۔ کن کی ہدایات پر یہ فیصلے کرتے رہے۔ بی اے پی کو برقرار رکھنے یا ختم کرنے کا فیصلہ بھی وہی لوگ کریں گے جنہوں نے یہ جماعت بنائی۔ اس میں شامل تمام الیکٹ ایبلز اب بھی ان کی مرضی کے بغیر باقی جماعتوں میں نہیں جا رہے۔‘

بلوچستان میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی پوزیشن

2008 سے 2013 تک پانچ سال بلوچستان پر حکومت کرنے والی پیپلز پارٹی کو 2013ء کے انتخابات میں بلوچستان میں بری طرح شکست ہوئی اور اس کا ایک بھی رکن اسمبلی کامیاب نہیں ہوا۔ سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی اور لشکری رئیسانی سمیت اس کے کئی اہم رہنما پارٹی چھوڑ گئے۔ تاہم گزشتہ دو سالوں کے دوران پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں الیکٹ ایبلز کو شامل کرکے اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے۔
2021 میں سابق گورنر وفاقی وزیر لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ عبدالقادر بلوچ، سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری، نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی وزیر نواب محمد خان شاہوانی، سابق رکن بلوچستان اسمبلی کرنل ریٹائرڈ یونس چنگیزی، سابق رکن بلوچستان اسمبلی کشور احمد جتک، سابق صوبائی وزیر آغا عرفان کریم احمد زئی نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔
اس کے بعد حالیہ مہینوں میں تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی محمد خان جمالی، بلوچستان عوامی پارٹی کے ارکان اسمبلی ظہور بلیدی، عارف محمد حسنی، سلیم کھوسہ، سابق صوبائی وزیر فائق جمالی، مکران سے اصغر رند، عبدالرؤف رند، نواب اسلم رئیسانی کے بھتیجے نوابزادہ جمال رئیسانی اور نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے نوابزادہ گزین مری بھی پیپلز پارٹی کا حصہ بنے ہیں۔
پیپلز پارٹی کی طرح مسلم لیگ ن بھی 2016 سے 2018 تک بلوچستان میں اڑھائی سال تک حکومت کرنے کے باوجود تقسیم در تقسیم کا شکار ہوئی اور 2018 کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی کی صرف ایک نشست پر نواب ثنا اللہ زہری کامیاب ہوئے لیکن انہوں نے بھی بعد میں پارٹی چھوڑ دی۔
تاہم اکتوبر 2020 میں سابق صوبائی وزیر اور پرانے لیگی شیخ جعفر خان مندوخیل کی شمولیت کے بعد ن لیگ نے بلوچستان میں دوبارہ اپنا وجود مضبوط بنانے کی کوشش کی ہے۔

مبصرین کے مطابق جمعیت علماء اسلام مستقبل میں بھی بلوچستان کی بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرے گی۔ (فوٹو: اے ایف پی)

تجزیہ کار عرفان سعید کا کہنا ہے کہ ’پیپلز پارٹی اور ن لیگ دونوں کی قیادت کی کوشش ہے کہ بلوچستان میں الیکٹ ایبلز کو اپنے ساتھ ملائیں اور بلوچستان میں اپنی آئندہ حکومت بنا سکے۔ پیپلز پارٹی کو اس سلسلے میں کچھ کامیابی بھی ملی ہے۔ اس کے بعد ن لیگ کی قیادت بھی متحرک ہوئی ہے۔ مریم نواز نے صوبائی صدر شیخ جعفر مندوخیل کو اہم ٹاسک سونپا ہے۔ آئندہ چند دنوں میں ن لیگ میں بڑی تعداد میں لوگ شمولیت کر رہے ہیں۔‘

بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں اور جے یو آئی کی پوزیشن

تجزیہ کار شہزاد ہ ذوالفقار کے مطابق پشتونخوا ملی عوامی پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے جس کا انہیں انتخابات میں بڑا نقصان ہو گا۔ محمود خان اچکزئی کو چمن کی آبائی نشست کے لیے بھی جمعیت علماء اسلام پر انحصار کرنا پڑے گا۔
ان کے بقول سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی بھی کی آئندہ انتخابات میں پوزیشن مزید کمزور ہوسکتی ہے کیونکہ عمران خان اور پھر موجودہ حکومت کی اتحادی کی حیثیت سے وہ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتریں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’قوم پرست جماعتوں بی این پی اور نیشنل پارٹی نے آپس میں اتحاد کیا یا جمعیت علماء اسلام کے ساتھ مل کرانتخاب لڑا تو ہر وقت سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے والے الیکٹ ایبلز کا راستہ روکا جاسکتا ہے ورنہ قوم پرست جماعتوں کو شکست ہو گی اور انہیں چند ہی نشستیں ہاتھ آئیں گی۔ البتہ جمعیت علماء اسلام اپنی سیاسی و پارلیمانی طاقت مستحکم رکھ سکتی ہے کیونکہ انہیں بلوچستان کے بلوچ اور پشتون دونوں علاقوں سے ووٹ ملتے ہیں۔‘
ان کے مطابق سابق وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی، سابق صوبائی وزراء ظفر اللہ زہری اور امان اللہ نوتیزئی کی شمولیت سے جمعیت علماء اسلام اور ان شخصیات دونوں کو فائدہ ہو گا۔
عرفان سعید سمجھتے ہیں کہ ’قوم پرست جماعتیں اپنے اپنے پاکٹس سے چند نشستیں نکالیں گی۔ جمعیت علماء اسلام مستقبل میں بھی بلوچستان کی بڑی سیاسی جماعت کے طور پر ابھرے گی تاہم اس کے باوجودوہ تنہاء حکومت بنانے کے قابل نہیں ہو گی اور ہمیشہ کی طرح اگلی حکومت بھی کئی جماعتوں کے اتحاد سے مخلوط ہی بنے گی۔‘

شیئر: