Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

الیکشن ایکٹ ترمیمی بل منظور، نگراں حکومت کے اختیارات کیا ہوں گے؟

قانون بننے کے بع نگراں حکومت پہلی بار اضافی اختیارات استعمال کرنے کی مجاز ہوگی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی پارلیمنٹ نے نگراں حکومت کے اختیارات میں اضافے سے متعلق ترمیم میں ردوبدل سمیت الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کا بل منظور کر لیا ہے۔ قانون بن جانے کے بعد آنے والی نگراں حکومت پہلی بار اضافی اختیارات استعمال کرنے کی مجاز ہوگی۔
بدھ کو سپیکر قومی اسمبلی راجا پرویز اشرف کی زیرصدارت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں الیکشن ایکٹ ترمیمی بل 2023 کی منظوری دی گئی۔  
نگراں حکومت کے اختیارات میں اضافے کی ترمیم منظور
نگراں حکومت سے متعلق الیکشن ایکٹ کی شق 230 کثرت رائے سے منظور کی گئی۔ اس کے تحت نگراں حکومت کو روزہ مرہ کے ساتھ ہنگامی نوعیت کے معاملات کو دیکھنے کا اختیار ہوگا جبکہ نگراں حکومت کو اضافی اختیارات حاصل ہوں گے۔  
مجوزہ ترمیم میں مزید ترمیم کرتے ہوئے طے کیا گیا کہ نگراں حکومت پہلے سے جاری پروگرام اور منصوبوں سے متعلق اختیار استعمال کر سکے گی۔
نگراں حکومت کو دو فریقی اور سہ فریقی معاہدے کرنے کا اختیار ہوگا۔ نگراں حکومت کو پہلے سے جاری منصوبوں پر اداروں سے بات کرنے کا اختیار ہوگا۔
نئی ترمیم کے تحت نگراں حکومت کے اختیارات میں اگرچہ اضافہ کیا گیا ہے لیکن وہ پھر بھی محدود ہی ہوں گے۔
نگراں حکومت کوئی نیا معاہدہ نہیں کر سکے گی۔ ترمیم کے تحت نگراں حکومت کو ملکی معیشت کے بہتر مفاد سے متعلق ضروری فیصلے کر نے کا اختیار ہوگا۔ 
نگراں حکومت ایسے اقدامات کرنے کی مجاز ہوگی جو بین الاقوامی اداروں اور غیرملکی حکومتوں کے ساتھ معاہدوں سے متعلق ہو۔
اس موقع پر وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ انتخابی اصلاحات بل میں سیکشن 230 کے علاوہ تمام سیکشنز پر کمیٹی کا اتفاق تھا۔ 
’منگل کو نگراں حکومت کے اختیارات کے معاملے پر ایشو بنا لیکن بدھ کو سردار ایاز صادق کی سربراہی میں کمیٹی کا ایک وضاحتی اجلاس ہوا جس میں نگراں حکومت کے اختیارات کی مزید وضاحت کر دی گئی ہے اور اب تمام ترامیم پر اتفاق ہوگیا ہے۔‘

پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما رضا ربانی نے نگراں حکومت کے اختیارات میں اضافے کی مخالفت کی (فائل فوٹو: اے پی پی)

تحفظات دور کرنے کے لیے کمیٹی کا وضاحتی اجلاس
قبل ازیں تحفظات دور کرنے کے لیے پالیمانی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں بل میں ترمیم کی گئیں۔
تحریک انصاف نے نگراں حکومتوں کو اضافی اختیارات کی مخالفت کی، تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر انتخابی اصلاحات کی کمیٹی کے اجلاس سے اٹھ کر باہر چلے گئے۔
حکومت نے نگراں حکومت کے اختیارات سے متعلق شق 230 بل سے نہ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے مطابق نگراں حکومت کو دو فریقی اور سہ فریقی معاہدوں کا اختیار ہوگا۔ نگراں حکومت کو پہلے سے جاری منصوبوں پر اداروں سے بات کرنے کا اختیار ہوگا۔
نگراں حکومت کے اختیارات محدود ہوں گے جو کہ کوئی نیا معاہدہ نہیں کر سکے گی، نگراں حکومت پہلے سے جاری پروگرام اور منصوبوں سے متعلق اختیار استعمال کر سکے گی۔
تحریک انصاف اور رضا ربانی کی مخالفت
پاکستان تحریک انصاف اور حکومتی اتحاد میں شامل جماعت پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما رضا ربانی نے نگراں حکومت کے اختیارات میں اضافے کی مخالفت کی۔
پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے ایک بار پھر نگراں حکومت سے متعلق شق کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ مجھے الیکشن ایکٹ میں دیگر ترامیم پر کوئی اختلاف نہیں۔‘

انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی صورت میں پریذائیڈنگ افسر اصل نتیجہ ذاتی طور پر پہنچانے کا پابند ہو گا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’سیکشن 230 میں کچھ چیزیں ایسی ہیں جس پر اختلاف تھا اور وزیر قانون کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ سیکشن 230 سے کچھ شقیں نکال دی گئی ہیں اور کچھ کو بہتر کر لیا گیا ہے۔‘
رضا ربانی نے کہا کہ ’نگراں حکومت کے اختیارات کو مزید بڑھانا درست نہیں ہے۔ پہلی بار ہوا کہ وزیراعظم کو خود کئی بار آئی ایم ایف کے ڈائریکٹر سے ٹیلی فون پر بات کرنا پڑی۔‘ 
’نئی نئی روایات رکھی جا رہی ہیں۔ بین الاقوامی سامراج کے کہنے پر ہمیں اپنی سکیم سے ہٹنا پڑ رہا ہے۔ اب قومی مفاد کی جگہ اکنامک اور سکیورٹی انٹرسٹ نے لے لی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آج نگرانوں کو جو اختیارات دیے جا رہے ہیں وہ آپ منتخب وزیر اعظم کو بھی نہیں دے سکتے۔ سامراج کے بازو مروڑنے کے طریقے بدل گئے ہیں اور آج ہمیں آئینی سکیم بدلنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔‘
’میں نگراں وزیراعظم کو سیکشن 230 کے اختیارات دینے کی مخالفت کرتا ہوں اس لیے سیکشن 230 کی ترمیم کو واپس لیا جائے۔‘
تحریک انصاف کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’آئین کے تحت حکومت پارلیمان کے تابع ہے۔ آئین میں نگراں حکومت اور وزیراعظم کی تعریف مخصوص ہے۔‘ 
’آئین میں نگراں حکومت کی ذمہ داری اور دائرہ کار واضح ہے۔ نگراں حکومت منتخب حکومت کی جگہ نہیں لے سکتی۔ نگراں کو منتخب حکومت کے اختیارات دینا آئین کا قتل ہے۔‘

الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کا عمل انتخابی شیڈول کے اعلان کے 4 ماہ قبل مکمل کرنا ہوگا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ نگراں حکومت کو اختیار دینا آئین کی خلاف ورزی ہے۔ نگراں حکومت کو اختیار دینے والے خواجہ آصف خود نگراں حکومت کے اختیارات کے خلاف سپریم کورٹ گئے تھے۔‘
’نگراں حکومت کے اختیار سے متعلق شق میں ترمیم کرنا کافی نہیں اور اگر نگراں حکومت کے اختیارات سے متعلق شق نہ ختم کی تو سپریم کورٹ اسے اُڑا دے گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایسی ترامیم پارلیمنٹ میں لائی گئیں جس سے پارلیمانی جمہوریت کا سارا تصور تبدیل ہو جائے گا۔ اس ترمیم کا وزیر قانون نے بھی اعتراف کیا ہے اور نگراں حکومت کو مستقل سیٹ اَپ نہیں دے سکتے۔‘
الیکشن ایکٹ کی شق وار منظوری کا عمل شروع ہوا تو تحریک انصاف کے سینیٹر محسن عزیز نے کورم کی نشان دہی کر دی۔ 
اس پر وزیر قانون خاصے برہم ہوئے اور کہا کہ ’جب کمیٹی میں تمام معاملات طے پا گئے تھے تو اب کورم کی نشاندہی کرنے کا کیا جواز ہے، تاہم گنتی کرنے پر کورم پورا نکلا جس کے بعد ایوان نے کثرت رائے سے ترمیم کی منظوری دے دی۔‘
الیکشن ایکٹ میں شامل دیگر ترامیم کیا ہیں؟
الیکشن ایکٹ میں جو دیگر ترامیم کی گئی ہیں ان کے تحت پریذائیڈنگ  افسر نتیجے کو فوری طور پر الیکشن کمیشن اور ریٹرننگ افسر کو بھیجنے کا پابند ہوگا۔
پریذائیڈنگ افسر حتمی نتیجے کی تصویر بنا کر ریٹرننگ افسر اور الیکشن کمیشن کو بھیجے گا۔ 

نادرا الیکشن کمیشن کو نئے شناختی کارڈ کے ریکارڈ کی فراہمی کا پابند ہوگا (فائل فوٹو: اے ایف پی)

انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی صورت میں پریذائیڈنگ افسر اصل نتیجہ ذاتی طور پر پہنچانے کا پابند ہو گا۔ 
پریذائیڈنگ افسر الیکشن کی رات 2 بجے تک نتائج دینے کا پابند ہوگا۔ تاخیر کی صورت میں وہ ٹھوس وجہ بتائے گا۔ پریذائیڈنگ افسر کے پاس الیکشن نتائج کے لیے اگلے دن صبح 10 بجے کی ڈیڈ لائن ہوگی۔
اس کے علاوہ نادرا الیکشن کمیشن کو نئے شناختی کارڈ کے ریکارڈ کی فراہمی کا پابند ہوگا جبکہ پولنگ ڈے سے پانچ روز قبل پولنگ سٹیشن تبدیل نہیں کیا جا سکے گا۔ انتخابی اخراجات کے لیے امیدوار پہلے سے زیراستعمال بینک اکاؤنٹ استعمال کرسکیں گے۔
ترمیمی بل کے مطابق حلقہ بندیاں آبادی کے تناسب سے کی جائیں گی۔الیکشن کمیشن ماسوائے غیر معمولی کیسز کے حلقہ بندیوں کے دوران اضلاع کی حدود میں رہنے کا پابند ہوگا۔  
غیر معمولی کیسز میں حلقہ بندیوں کے دوران ضلع کی حدود سے باہر صرف 10 فیصد آبادی کو شامل کیا جاسکے گا۔ الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کا عمل انتخابی شیڈول کے اعلان کے 4 ماہ قبل مکمل کرنا ہوگا۔
اس کے علاوہ تمام انتخابی حلقوں میں رجسٹرڈ ووٹرز کی تعداد برابر ہوگی۔ حلقوں میں ووٹرز کی تعداد میں فرق 5 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگا۔ 
پولنگ سٹیشن میں کیمروں کی تنصیب میں ووٹ کی رازداری یقینی بنائی جائےگی۔ امیدوار قومی اسمبلی کی نشست کے لیے 40 لاکھ روپے سے ایک کروڑ روپے تک جبکہ صوبائی نشست کے لیے انتخابی مہم پر 20 سے 40 لاکھ روپے خرچ کر سکیں گے۔
غفلت اور دھاندلی کے مرتکب انتخابی عملے، پریذائیڈنگ اور ریٹرنگ افسر کے خلاف الیکشن کمیشن فوجداری کارروائی کرنے کا مجاز ہو گا۔

شیئر: