Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دوحہ مذاکرات، طالبان کی حراست میں امریکی شہریوں کی غیرمشروط رہائی کا مطالبہ

طالبان کی جانب سے وفد کی نمائندگی وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں واشنگٹن نے اقتصادی استحکام اور منشیات کی سمگلنگ روکنے کے لیے کابل کے ساتھ بات چیت پر رضامندی کا اظہار کیا ہے۔
منگل کو امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ مذاکرات کے دوران امریکی حکام نے طالبان پر انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے پر زور دیا جن سے خاص طور پر خواتین، لڑکیاں اور کمزور کمیونٹیز متاثر ہوئی ہیں۔
امریکی حکام نے افغان شہریوں کو حراست میں لینے، میڈیا کریک ڈاؤن اور مذہبی عقائد کے حوالے سے پابندیوں پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا۔
اعلامیے کے مطابق امریکہ نے افغان عوام کی جانب سے اپنے حقوق کے احترام اور ملک کے مستقبل میں ان کی رائے کو اہمیت دیے جانے کے مطالبے کی بھی ہمایت کی۔
قطر کے دارالحکومت دوحہ میں امریکی اور طالبان حکام کے درمیان 30 اور 31 جولائی کو دو روزہ مذاکرات ہوئے۔
امریکہ کی جانب سے افغانستان کے لیے نمائندہ خصوصی تھامس ویسٹ، افغان خواتین کے حقوق کا دفاع کرنے کے لیے امریکی مندوب رینا امیری نے شرکت کی جبکہ طالبان کی جانب سے وفد کی نمائندگی وزیر خارجہ امیر خان متقی کر رہے تھے۔ 
اعلامیے کے مطابق امریکی حکام نے طالبان کی جانب سے افغانستان کی سرزمین کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دھمکی دینے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہ دینے کے مسلسل عزم کا نوٹس لیا، اور سکیورٹی سے متعلق وعدوں کو پورا کرنے کے لیے طالبان کی کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔
امریکی حکام نے حراست میں لیے گئے امریکی شہریوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی پر بھی زور دیا۔
کابل انتظامیہ نے کہا ہے کہ مذاکرات میں اس کے وفد نے طالبان رہنماؤں پر دیگر پابندیوں سمیت بیرون ملک سفر پر پابندی اٹھانے اور افغانستان کے سینٹرل بینک کے اثاثوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
اگست 2021 میں کابل کے کنٹرول کے بعد ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔
امریکہ نے 20 سال کے تنازعے کے بعد افغانستان سے 2021 میں فوجیوں کا انخلا کیا تھا۔
امریکی محکمہ خارجہ نے مذاکرات کے حوالے سے کہا ہے کہ واشنگٹن نے افغانستان میں انسانی حقوق کی خراب صورتحال پر خدشات کو دہرایا اور طالبان سے لڑکیوں کی ثانوی تعلیم اور خواتین کی ملازمت پر عائد پابندیوں کو واپس لینے اور حراست میں لیے گئے امریکیوں کی رہائی کا مطالبہ ایک بار پھر کر دیا۔
امریکی وفد نے افغان سینٹرل بینک اور وزارت خزانہ کے نمائندوں سے بھی ملاقات کی اور افغانستان کی معیشت اور بینکنگ سیکٹر کو درپیش چیلنجز پر بات چیت کی۔

اگست 2021 میں کابل کے کنٹرول کے بعد ابھی تک کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

زیادہ تر طالبان رہنماؤں کو بیرون ملک سفر کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی اجازت درکار ہوتی ہے اور افغانستان کا بینکنگ سیکٹر طالبان کے قبضے کے بعد پابندیوں کی وجہ سے مفلوج ہو چکا ہے۔
افغانستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان قہار بلخی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ’امارت اسلامیہ نے ایک مرتبہ پھر دہرایا کہ اعتماد سازی کے لیے یہ ضروری ہے کہ ’طالبان رہنماؤں پر سفری پابندیاں ختم کی جائیں اور سینٹرل بینک کے ذخائر کو بحال کیا جائے تاکہ افغان غیرملکی امداد پر انحصار نہ کرنے والی معیشت قائم کر سکیں۔‘
کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد افغان سینٹرل بینک کے تقریباً سات ارب ڈالر فیڈرل ریزرو بینک آف نیویارک میں منجمد ہو گئے تھے۔

شیئر: