جب محمد حسن کے ٹو پر تین گھنٹے زندگی اور موت کے درمیان لٹکے رہے
جب محمد حسن کے ٹو پر تین گھنٹے زندگی اور موت کے درمیان لٹکے رہے
اتوار 6 اگست 2023 18:13
محمد حسن لِیلا پیک ایکسپیڈیشن کے ملازم تھے۔ (فوٹو: ایڈونچر الپائن گائیڈز)
رواں برس 27 جولائی کو رات ڈھائی بجے کوہ پیماؤں کی ایک طویل قطار آہستہ آہستہ دنیا کی دوسری سب بلند اور خطرناک چوٹیوں میں سے ایک کےٹو کی جانب آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔
ایکسپلوررز ویب کے مطابق کےٹو کی جانب جانے والا یہ راستہ کافی خطرناک تھا اور اس وقت اندھیرا بھی تھا۔
تمام کوہ پیماؤں کی توجہ اپنے مقاصد پر تھی۔ کچھ ریکارڈ بنانے آئے تھے جبکہ زیادہ تر جانتے تھے کہ انہیں اس دن چوٹی سر کرنا پڑے گی یا گھر جانا پڑے گا۔ ان کی یہ مہمات مہینے کے آخر میں ختم ہو جانی تھیں۔
اس مہم کے منتظمین جو بیس کیمپ سے تمام معاملات دیکھ رہے تھے، انہیں برفانی تودوں کے گرنے اور ایک حادثے کی اطلاعات موصول ہونی لگیں۔ تاہم کچھ دیر بعد چوٹی سر کرنے کی اطلاعات نے ان کی تشویش ختم کر دی۔
ناروے کی کرسٹن ہریلا اور تینجن شیرپا لاما سب سے پہلے کےٹو سر کرنے والوں میں شامل تھے۔ کچھ دیر بعد دوسری ٹیموں نے بھی چوٹی سر کر لی۔
بعد میں بالآخر اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ ایک پاکستانی پورٹر محمد حسن کی موت ہو گئی ہے۔ ان کی موت کے حوالے سے معلومات مبہم تھیں۔
ایکسپلوررز ویب نے محمد حسن کی موت کے حوالے سے جب سوالات پوچھنے شروع کیے تو انہیں کچھ جوابات ہی ملے: جن میں کوئی ٹھوس معلومات نہیں تھیں اور کئی بیانات متضاد تھے۔
محمد حسن اس مہم میں کیا کر رہے تھے؟
محمد حسن لِیلا پیک ایکسپیڈیشن کے ملازم تھے۔ الیکس ابراموف کے سیون سمٹ کلب نے انہیں سمٹ پش کے دوران رسی لگانے والوں کی مدد کے لیے رکھا تھا۔
الیکس ابراموف کے مطابق ’کےٹو سر کرنے کی مہم سے قبل تمام کمپنیاں رسیاں لگانے والی ٹیم کے لیے ورکرز فراہم کرتی ہیں۔ ہمیں تین پاکستانی ملے تھے، حسن بھی ان میں ایک تھے۔‘
’ہم نہیں جانتے کہ واقعی کیا ہوا کیونکہ وہ ہمارے ممبران اور شیرپا گروپ سے آگے تھے۔ ممبرز نے صرف یہ دیکھا کہ راستے میں رسیوں پر کچھ ہوا ہے۔‘
کچھ کوہ پیماؤں جن میں کے8 ایکسپیڈیشن کے لکپا شیرپا اور کیمرہ مین فلپ فلیمگ بھی شامل ہیں، کے مطابق محمد حسن زیادہ تجربہ کار نہیں تھے اور ان کا سامان کےٹو پر جانے کے لیے ناکافی تھا۔
اس حوالے سے لِیلا پیک ایکسپیڈیشن کا مؤقف جاننے کی بھی کوشش کی لیکن ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا۔
بلغاریہ کی سلویا ازدریوا نے کےٹو کی چوٹی کو سر کیا۔ (فوٹو: سلویا ازدریوا)
برفانی تودے
بلغاریہ کی سلویا ازدریوا نے ایلیٹ ایکسپڈ ٹیم کی رکن کے طور پر اس دن کےٹو کو سر کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس دن چوٹی سر کرنے کے دوران ہمارے راستے میں پانچ برفانی تودے گرے تھے۔ ہم راستے میں ان میں سے ایک کی زد میں آئے۔ خوش قسمتی سے ہم زخمی نہیں ہوئے اور ہم برف سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے۔ ہم اس بات پر بحث کر رہے تھے کہ آیا ہم اپنی مہم جاری رکھیں یا واپس چلیں۔‘
’(پھر بعد میں) ایک شخص میری آنکھوں کے سامنے مر گیا۔ ایک لمحہ وہ زندہ تھا اور پھر واپسی پر ہمیں برف کے کنارے پر اس کی لاش پر چھلانگ لگا کر گزرنا پڑا۔‘
امریکی کوہ پیما لوسی ویسٹ لیک نے ایکسپلوررز ویب کو بتایا کہ ایک برفانی تودہ ان پر گرا۔
’تقریباً 2:30 بجے میں اس جگہ سے نیچے برفانی تودے (خوش قسمتی سے صرف موٹی برف) میں تھی جہاں پاکستانی کوہ پیما گرا تھا۔‘
کوہ پیما ایلی پیپر نے کہا کہ ’ایک پاکستانی کوہ پیما گر گیا اور ایک گھنٹے سے زیادہ الٹا لٹکا رہا۔ وہ اسے واپس اوپر کھینچنے میں کامیاب ہو گئے۔ پہلے تو وہ زندہ تھا، لیکن اسے بچایا نہیں جا سکا۔ پھر سب کو چوٹی کی طرف جانے کے لیے اس پر سے گزر کر جانا پڑا۔‘
محمد حسن کو بچایا کیوں نہیں جا سکا؟
لوئس سوریانو دوسری سیون سمٹ کلب ٹیم میں تھے، جو ایک دن بعد چوٹی تک پہنچی،۔ ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ اسے بچانے کی کوئی کوشش کیسے نہیں کی گئی، حالانکہ وہ ایک بہت ہی پیچیدہ جگہ پر تھا۔ چوٹی پر جاتے ہوئے لوگوں کو حقیقتاً اس پر سے چھلانگ لگا کر جانا پڑا۔ میں اگلے دن اس جگہ سے گزرا تو لاش وہاں موجود تھی، یہ ایک المیہ ہے۔‘
کےٹو کی جانب جانے والا یہ راستہ کافی خطرناک تھا۔ (فوٹو: لکپا شیرپا)
لکپا شیرپا کے مطابق ’کےٹو پر کوئی ریسکیو ٹیم نہیں ہے اور رابطہ افسر کچھ نہیں کر سکتا۔ حادثے سے قبل کچھ شیرپاز نے اسے (محمد حسن کو) کئی بار واپس جانے کو کہا، کیونکہ اس کا سامان اور کپڑے بہت خراب تھے، لیکن اس نے ایک نہ سنی اور دوسرے کوہ پیماؤں کا پیچھا کیا۔‘