جون: میوزک کے دلدادہ نوجوان کا خاکروب سے گینگسٹر تک کا سفر
جون: میوزک کے دلدادہ نوجوان کا خاکروب سے گینگسٹر تک کا سفر
جمعرات 10 اگست 2023 7:17
قیصر کامران۔ کراچی
کراچی کے ایک غریب مسیحی گھرانے میں پیدا ہونے والے جون کے خواب کچھ الگ تھے۔ سنجیدہ مزاج کا مالک جون اپنی والدہ کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتا ہے جہاں وہ گٹار کی دھن پر اپنے دل کو بہلاتا تھا۔
ہسپتال میں نوکری سے نکالے جانے کے بعد جب اس نے سکول میں خاکروب کی حیثیت سے کام شروع کیا تو اسی دوران اُس کی نظر سکول کی ملازمہ پر پڑی اور وہ اُسے دل دے بیٹھا۔
ماریہ کی صورت میں اُس کی ویران زندگی میں کچھ رونق آئی تھی کہ اچانک ایک حادثے میں ماں کی موت نے جون کی زندگی ہی تبدیل کردی۔ ماں دنیا سے گئی اور جون کی سکول کی نوکری بھی چلی گئی۔
ان مشکل حالات میں صرف ایک شخص تھا جسے جون اپنا ہمدرد سمجھتا تھا اور وہ تھا داؤد جسے وہ اپنے بڑے بھائی اور اُستاد کی طرح سمجھتا تھا۔
داؤد بھری دنیا میں تنہا جون پر نہ صرف شفقت کا ہاتھ رکھتا ہے بلکہ اسے اپنے گھر بھی لے جاتا ہے لیکن جون یہ نہیں جانتا تھا داؤد یہ سب بےلوث ہو کر نہیں کر رہا بلکہ اُس کا ایک مقصد ہے۔ اور یہیں سے جون کے خاکروب سے گینگسٹر بننے تک کا سفر شروع ہوتا ہے۔
جون کچھ ہی دنوں میں ’داؤد بھائی‘ کا دایاں بازو بن جاتا ہے اور اس کے جرائم میں معاونت کرتا ہے۔ جُرم کی کہانی کے ساتھ ساتھ جون کی پریم کہانی بھی بڑھنے لگتی ہے۔
داؤد بھائی اس کی اور ماریہ کی شادی کے حق میں نہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد جون ان کے ’کسی کام کا نہیں رہے گا۔‘
داؤد بھائی کایہ خدشہ درست ثابت ہوتا ہے اور شادی کے کچھ ہی عرصے بعد ماریہ جب جون کے سامان میں رکھی پستول دیکھ کر گھر چھوڑ کر چلی جاتی ہے تو جون کی زندگی پھر سے نیا موڑ لیتی ہے۔
عاشر وجاہت فلم کراچی سے لاہور، لاہور سے آگے اور چھلاوا جیسی فلمیں بنانے والے ہدایتکار وجاہت رؤف کے بیٹے ہیں۔ اس سے قبل وہ اپنے والد کی تقریباً ہر فلم میں ہی مختصر کردار میں نظر آئے لیکن بطور مرکزی اداکار یہ ان کی پہلی فلم ہے۔
عاشر وجاہت کے ماضی کے کرداروں ایک امیر بچے کی جھلک دیکھنے کو ملتی تھی وہ یہاں نہیں تھی۔ مایوسی ضرور ہوئی کہ اچھے گیٹ اپ کے باوجود ان کے ایکسپریشنز کچھ خاص متاثر نہ سکے۔
فلم میں عاشر وجاہت نے مرکزی کردار ضرور ادا کیا ہے لیکن سلیم معراج نے اپنے عمدہ فن کا مظاہرہ کرتے ہوئے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ سپورٹنگ رول کے باوجود سلیم معراج پوری فلم میں غالب رہے۔
فلم کا تیسرا اہم کردار رومیسہ خان کا تھا جو ماریہ کے کردار میں نظر آئیں۔ رومیسہ خان کی باڈی لینگوج اور ایکسپریشن کمال تھے البتہ پنجابی لہجے میں ان کی گفتگو تھوڑی بناوٹی لگی۔
ایک اور کردار تھا فضل کا جسے ادا کیا رضا سموں نے، جو منفرد مگر مختصر تھا ابتدا کے 20 سے 25 منٹ کے دوران ہی یہ کردار ختم ہوجاتا ہے لیکن اس دوران بھی ان کے تاثرات اور مزاح سے ایسا نہیں لگا کہ یہ رضا کی یہ پہلی فلم تھی۔
فلم میں پہلی چیز جہاں کمال ڈائریکشن دیکھنے کو ملے گی وہیں دوسری بہترین چیز ڈئیلاگ ہیں جواگرچہ کم ہیں لیکن جاندار ہیں۔
جیسے ایک سین میں داؤد اپنے ساتھی فضل کو غداری کے جرم میں قتل کرنے کے بعد جون سے کہتا ہے کہ ’ہر جانور پالتو نہیں ہوتا۔‘
ایک سین میں جب داؤد، جون کو موٹر سائیکل چلانا سکھا رہا ہوتا ہے تو گرنے خوف میں مبتلا جون سے کہتا ہے کہ ’دانت ٹوٹے ہوئے، گُھٹنے چِھلے ہوئے یہ کراچی کے لڑکوں کی پہچان ہے۔‘
فلم کے منفی پہلووں کی بات کریں تو سب سے اہم یہ کہ اس فلم میں جون کے کرادر کو ٹھیک طریقے سے نہیں لکھا گیا کیونکہ مرکزی کردار ہونے کے باوجود وہ سپورٹنگ کریکٹر داود پر حاوی نہ آسکا یا شاید اگر اس کردار کیلئے عاشر وجاہت کے بجائے کسی دوسرے اداکار کا انتخاب کیا جاتا تو معاملہ مختلف ہوتا ۔
فلم میں کچھ جھول بھی تھے جیسے کہ دکھایا گیا کہ جون میوزک کا شوق رکھتا ہے گٹار بجاتا ہے، گانے لکھتا ہے لیکن جب فلم آگے بڑھتی ہے تو اس حوالے سے مزید کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا یوں کہہ لیں کہ یہ منظر اضافی ہی تھا۔
فلم میں عاشر اور رومیسہ کے کرادر پر بھی تھوڑی توجہ دے کر ان دونوں کی کیمسٹری کو مزید دلچسپ بنایا جا سکتا تھا۔
فلم کی ہداہتکاری دیکھ کر کم ازکم اتنا ضرور کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک اچھی کوشش تھی۔ فلم کی کہانی بابر علی نے لکھی ہے جبکہ اس کی ہدایات دینے کے علاوہ وہ فلم کے شریک پروڈیوسر بھی ہیں۔
بابر نے اُردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’کوئی بھی فلم پرفیکٹ نہیں ہوتی لیکن پھر بھی جتنے وسائل اور وقت تھا اس میں کچھ اچھا پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔‘
بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ فلم جون بالی وڈ کے کرائم سیریز کی جھلک پیش کرتی ہے جیسا کہ حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم مداری میں دیکھنے کو ملا کہ کم بجٹ کے ساتھ نئے چہروں نے زیادہ اچھی پرفارمنس دی۔