بوال: ایسے جوڑے کی کہانی جسے ’دوسری عالمی جنگ‘ قریب لے آئی
جمعرات 27 جولائی 2023 7:15
خاور جمال
سوشل میڈیا پر تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ رشتے کی پیچیدگیوں کا ہولوکاسٹ سے موازنہ کیوں کیا گیا (فوٹو:سکرین گریب)
شادی کا موقع ہے، بارات آ چکی ہے۔ رسومات پوری ہو گئی ہیں اور کچھ ہی دیر میں رخصتی ہونے والی ہے لیکن رخصتی نہیں ہو رہی۔ دیر کیوں ہو رہی ہے؟ پتہ چلا دلہن کو مرگی کا دورہ پڑا ہے کچھ دیر رکنا ہو گا۔
سوچیں دلہا کا کیا حال ہو گا؟ ایسا نہیں کہ پہلے اس بیماری کے بارے میں لڑکے والوں کو بتایا نہیں گیا تھا لیکن عین رخصتی کے وقت؟ لیکن مرگی کا دورہ ذہنی دباؤ بڑھنے کی وجہ سے بھی تو پڑ سکتا ہے اور آپ خود بتائیں کہ دلہن سے زیادہ سٹریس اور کس کو ہو سکتا ہے؟
فلم میں ہسڑی کے سکول ٹیچر اجے (اجو بھائی) کا کردار اداکار ورون دھون اور ان کی بیوی نسا کا کردار اداکارہ جھانوی کپور نے ادا کیا ہے۔ اجو بھائی کا کردار ایک ایسے اکھڑ مزاج شوہر کا ہے جو ظاہرداری اور بناوٹی زندگی پر مکمل بھروسہ رکھتا ہے اور ایک فیک امیج قائم رکھنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہے۔
اس کردار میں اداکاری کا بھرپور مارجن تھا جس کا فائدہ ورون دھون نے پوری طرح سے اُٹھایا ہے۔ دوسری طرف نسا کا کردار ایک خاموش طبع اور سیدھی سادی لڑکی کا ہے جو پہلے ہی اپنی مرگی کی بیماری سے پریشان ہے۔
جھانوی کپور کو اس کردار کے لیے غالباً اسی لیئے چنا گیا ہے کہ اس میں ان کے مکالمے کم تعداد میں ہیں۔ ان کی آواز سن کر مجھے اداکارہ زیبا بختیار کی آواز یاد آ گئی۔
جھانوی کپور کو اپنی تاثراتی اداکاری پر توجہ دینے کی شدید ضرورت ہے کیونکہ بیشتر مکالمے انھوں نے سپاٹ چہرے کے ساتھ ادا کیے ہیں۔ یہ کردار اداکارہ تاپسی پنو، یامی گوتم یا کریتی سانن بھی اچھے سے ادا کر سکتی تھیں۔
فلم کی کہانی کی جانب واپس آتے ہیں۔ اب شادی ہو چکی ہے اور اجو بھائی کا موڈ شروع سے ہی آف ہے کہ ان کے ساتھ ہوتے ہوئے کسی کے سامنے اگر نسا کو مرگی کا دورہ پڑ گیا تو ان کی ’کیا عزت رہ جائے گی‘ اور بنے بنائے امیج کا بیڑا غرق ہو جائے گا۔
فلم میں دونوں کے والدین کو انتہائی سمجھ دار دِکھا کر یہ پیغام دیا گیا ہے کہ شادی دو انسانوں کے درمیان نہیں بلکہ دو خاندانوں کے درمیان ہوتی ہے۔ بچوں کا گھر بسانا ہو تو ماں باپ کی بے لوث محبت اور سپورٹ بہت ضروری ہوتی ہے۔
میاں بیوی میں دوریاں بڑھنے لگتی ہیں جس کی وجہ سے نوبت طلاق تک پہنچنے لگتی ہے لیکن پھر درمیان میں یورپ کا ٹرپ آ دھمکتا ہے جو اجو کی زندگی بدل کر رکھ دیتا ہے۔ وہ فیصلہ کرتا ہے کہ بچوں کو دوسری عالمی کے بارے میں ان جگہوں پر جا کر پڑھائے جہاں یہ سب ’بوال‘ ہوا تھا۔ یہ بھی اس کی ’امیج بلڈنگ‘ کا ایک جگاڑ ہوتا ہے۔
اس طرح ناظرین یورپ کی سیر کرنے کے دوران دوسری عالمی جنگ کے مظالم کی روشنی میں ایک اکھڑ مزاج شوہر کو اپنی خاموش طبع بیوی کے حق میں بدلتے ہوئے دیکھ پائیں گے۔
رشتہ توڑنے کے سو طریقے ہوتے ہیں مگر جوڑنا چاہیں تو ایک بھی کافی ہے۔ چاہے دوسری عالمی جنگ سے ہی سبق کیوں نہ لینا پڑے۔
سوشل میڈیا پر خاصی تنقید بھی کی جا رہی ہے کہ ازدواجی زندگی کی پیچیدگیوں کا ہولوکاسٹ سے موازنہ کیوں کیا گیا۔
نتیش تیواری جن کے کریڈیٹ پر’دنگل‘ جیسی ارب پتی فلم موجود ہے انھوں نے اس ’بوال‘ کا وبال کیوں اپنے سر لیا، اس کا جواب نہیں مل سکا۔ جب میں نے اس فلم کا پوسٹر دیکھا تو مجھے محسوس ہوا کہ لو سٹوری قبیلے کی اس فلم میں ہیروئن کو حاصل کرنے کے لیے ہیرو کشتوں کے پشتے لگا دے گا اور خوب بوال یعنی لڑائی جھگڑے ہوں گے اس (ایکشن) فلم میں لیکن کہانی بالکل برعکس نکلی۔
فلم میں ورون دھون کا تخیل اتنا زیادہ مضبوط دکھایا گیا ہے کہ ایک سین میں جناب نارمنڈی کے ساحل پر ہنسی مذاق کرتے مشروب غیر طہورا ڈھونڈتے پھر رہے ہیں لیکن دوسرے ہی لمحے جب وہ سیاحوں کے لیے کمنٹری کے مخصوص ہیڈ فون کان سے لگاتے ہیں تو ایک دم ’ورچول ریئلٹی‘ کا تجربہ کرنے لگ جاتے ہیں اور میدان جنگ میں پہنچ جاتے ہیں۔ گولیاں چل رہی ہیں، فوجی مر رہے ہیں اور یہ سب وہ چشم حقیقی سے دیکھ رہے ہیں۔ کمال ہے!
سب سے اچھی مکالموں کی ادائیگی اجو بھائی کے دوست ’بپن‘ کی ہے۔ فلم چونکہ لکھنؤ کے پس منظر میں فلمائی گئی ہے لہذا اہلِ زبان تو نہیں لیکن بپن کے کردار کا گلی محلے کے لونڈوں جیسا شرارتی لہجہ اعلیٰ ہے۔ یہ کردار اداکار پراتیک نے کیا ہے جو ایک سیزن ’پنچایت‘ میں بھی کام کر چکے ہیں۔ ان کا مستقبل بالی وڈ میں مجھے روشن نظر آتا ہے۔
اس فلم کی ریٹنگ آئی ایم ڈی بی پر 10 میں سے 7 ہے اور گیجٹس نامی ویب سائٹ اسے 5 میں سے 5۔3 نمبر دیتی ہے۔ شاید فلم دیکھے بغیر یہ ریٹنگ دی گئی ہے۔
اگر آپ کو فلم سے ہٹ کر دوسری عالمی جنگ کی کچھ جان کاری چاہیے تو فلم ضرور دیکھیں۔ خیر فلم کی رفتار قدرے سست ہے۔ اگر آپ قیلولہ کرنے کے دوران یہ فلم دیکھتے ہوئے ذرا دیر سو بھی جائیں تو مسئلہ نہیں۔ جاگیں گے تو کہانی سمجھ آ جائے گی۔