سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ ایکٹ کے تحت آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلوں میں اپیل کا حق ختم ہو جائے گا۔
پارلیمنٹ نے اس قانون کے ذریعے ازخود نوٹس اور عوامی مفاد کے تحت کیے گئے فیصلوں میں نظر ثانی کی جگہ اپیل کا حق دیا تھا۔
جمعے کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تفصیلی فیصلہ دیا جسے چیف جسٹس نے پڑھ کر سنایا۔
مزید پڑھیں
-
سیاسی لوگ انصاف نہیں من پسند فیصلے چاہتے ہیں: چیف جسٹسNode ID: 761681
-
عمران خان اٹک جیل میں کن حالات میں رہ رہے ہیں؟Node ID: 786546
فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ’پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا حق نہیں رکھتی۔‘
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 19 جون کو ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ پنجاب انتخابات کیس میں حکومت نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ پیش کر کے بینچ پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی، سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کا متفقہ فیصلہ سنایا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے 87 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ہے۔
متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی۔
جسٹس منیب اختر کا اضافی نوٹ بھی متفقہ فیصلے کا حصہ ہے۔
![](/sites/default/files/pictures/August/36486/2023/98d6ap-preview.jpg)
سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ ’ہم نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے، کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے کے اختیار کو انتہائی احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ ایک قانون کو اس وقت کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے جب اس کی شقیں آئین سے ہم آہنگی رکھتی ہوں۔‘
’ریویو آف ججمنٹ آئین پاکستان سے واضح طور پر متصادم ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قانون کو آئین سے ہم آہنگ قرار دیا جائے۔ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو اس طرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو۔ اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا۔‘
تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ سائلین سپریم کورٹ سے رجوع کرنا شروع کردیں گے اس بات کو سامنے رکھے بغیر کہ جو فیصلے دیے گئے ان پر عمل درآمد بھی ہوچکا۔
’پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی۔ طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا۔ سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارے ذہنوں میں کوئی شک نہیں کہ مجوزہ قانون کا اصل مقصد آرٹیکل 184/3 کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینا تھا۔ اس سوال کا جواب کہ پارلیمنٹ بینچز کی تشکیل سے متعلق قانون بنا سکتا ہے، نفی میں ہوگا۔‘
تفصیلی فیصلے میں لارجر بینچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پانچ رکنی لارجر بینچ طے کر چکا ہے کہ ماسٹر آف دا روسٹر چیف جسٹس ہے۔
’سپریم کورٹ قانون میں تبدیلی نہیں کر سکتی۔ آئین واضح کر چکا ہے کہ تمام فریقین عدالتی فیصلوں پر عمل کے پابند ہوں گے۔‘
![](/sites/default/files/pictures/August/36486/2023/326q3dd-preview.jpg)