Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عوامی مفاد کے مقدمات میں اپیل کے حق کا قانون کالعدم، ’پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں‘

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا حق نہیں رکھتی۔ فوٹو: اے ایف پی
سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ ایکٹ کے تحت آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلوں میں اپیل کا حق ختم ہو جائے گا۔
پارلیمنٹ نے اس قانون کے ذریعے ازخود نوٹس اور عوامی مفاد کے تحت کیے گئے فیصلوں میں نظر ثانی کی جگہ اپیل کا حق دیا تھا۔
جمعے کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تفصیلی فیصلہ دیا جسے چیف جسٹس نے پڑھ کر سنایا۔ 
فیصلے میں چیف جسٹس آف پاکستان نے کہا کہ ’پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا حق نہیں رکھتی۔‘
سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 19 جون کو ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کیس کا فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ پنجاب انتخابات کیس میں حکومت نے ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ پیش کر کے بینچ پر اعتراضات اٹھائے تھے۔
چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی، سپریم کورٹ کا فیصلہ
سپریم کورٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیس کا متفقہ فیصلہ سنایا گیا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے 87 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا ہے۔
متفقہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی۔
جسٹس منیب اختر کا اضافی نوٹ بھی متفقہ فیصلے کا حصہ ہے۔

ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ 2023 مئی میں پارلیمنٹ منظور ہوا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ نے اپنے تفصیلی فیصلے میں لکھا کہ ’ہم نے آئین کے تحفظ اور دفاع کا حلف اٹھا رکھا ہے، کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے کے اختیار کو انتہائی احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ ایک قانون کو اس وقت کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے جب اس کی شقیں آئین سے ہم آہنگی رکھتی ہوں۔‘
’ریویو آف ججمنٹ آئین پاکستان سے واضح طور پر متصادم ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قانون کو آئین سے ہم آہنگ قرار دیا جائے۔ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو اس طرح بنایا گیا جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو۔ اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب امڈ آئے گا۔‘
تفصیلی فیصلے میں لکھا ہے کہ سائلین سپریم کورٹ سے رجوع کرنا شروع کردیں گے اس بات کو سامنے رکھے بغیر کہ جو فیصلے دیے گئے ان پر عمل درآمد بھی ہوچکا۔
’پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی۔ طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا۔ سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔‘
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ہمارے ذہنوں میں کوئی شک نہیں کہ مجوزہ قانون کا اصل مقصد آرٹیکل 184/3 کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینا تھا۔ اس سوال کا جواب کہ پارلیمنٹ بینچز کی تشکیل سے متعلق قانون بنا سکتا ہے، نفی میں ہوگا۔‘
تفصیلی فیصلے میں لارجر بینچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پانچ رکنی لارجر بینچ طے کر چکا ہے کہ ماسٹر آف دا روسٹر چیف جسٹس ہے۔ 
’سپریم کورٹ قانون میں تبدیلی نہیں کر سکتی۔ آئین واضح کر چکا ہے کہ تمام فریقین عدالتی فیصلوں پر عمل کے پابند ہوں گے۔‘

 صدر مملکت کے دستخط کے بعد ایکٹ 29 مئی کو نافذالعمل ہوا۔ فوٹو: اے ایف پی

ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کیا ہے؟
ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کے تحت آرٹیکل 184کی شق تین کے تناظر میں عوامی مفاد کے مقدمات میں نظر ثانی اپیلیں لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لیے مقرر کرنے کا ذکر ہے۔
خیال رہے کہ ’سپریم کورٹ(ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز) ایکٹ 2023‘ پارلیمنٹ سے مئی میں منظوری کے بعد 26 مئی کو صدر مملکت نے دستخط کیے تھے جو پھر 29 مئی کو نافذالعمل ہوا۔
سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈرز ایکٹ کی 7 شقیں تھیں۔ 
اس ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کا دائرہ اختیار مفاد عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کے لیے بڑھایا گیا تھا اور مفاد عامہ کے مقدمات کی نظر ثانی کو اپیل کے طور پر سنا جانے کا اختیار تھا۔
اس کے علاوہ کسی بھی فیصلے کی نظر ثانی کی سماعت کرنے والے بینچ میں ججز کی تعداد مرکزی کیس سے زیادہ شامل کی گئی تھی۔ 
صرف یہی نہیں بلکہ نظر ثانی میں متاثرہ فریق کو وکیل تبدیل کرنے کا اختیار دیا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کے کسی بھی وکیل کی خدمات حاصل کی جا سکیں گی۔
ایکٹ کا اطلاق آرٹیکل 184 تین کے پچھلے تمام مقدمات پر بھی ہونا تھا۔

شیئر: