Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سپریم کورٹ کا فیصلہ: ملکی سیاست پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ 

سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ’آئین کے تحت قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کا کام فیصلے کرنا ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ 2023 کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔ ایکٹ کے تحت آئین کے آرٹیکل 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کے فیصلوں میں اپیل کا حق ختم ہو گیا ہے۔
جمعے کو سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ریویو آف ججمنٹ آئینِ پاکستان سے واضح طور پر متصادم ہے۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ اس قانون کو آئین سے ہم آہنگ قرار دیا جائے۔‘
فیصلے کے مطابق ’ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ کو اس طرح بنایا گیا ہے جیسے آئین میں ترمیم مقصود ہو۔ اگر اس قانون کے تحت اپیل کا حق دے دیا گیا تو مقدمہ بازی کا ایک نیا سیلاب اُمڈ آئے گا۔‘

کیا فیصلے سے نواز شریف کا سیاسی مستقبل متاثر ہو گا؟

بعض تجزیہ کاروں کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سابق وزیراعظم کا سپریم کورٹ میں اقامہ کی بنیاد پر تاحیات نااہلی کے فیصلے میں اپیل کا حق بھی ختم ہو گیا ہے۔ اس لیے ان کا وطن واپس آکر انتخابی سیاست میں شامل ہونا ایک بار پھر ناممکن بنا دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے ایڈووکیٹ حافظ احسان کھوکھر نے اُردو نیوز کو بتایا کہ نواز شریف اپنے کیس میں نظرثانی کی درخواست کرچکے ہیں اور ان کی نظرثانی مسترد بھی ہو چکی ہے۔
’اسی لیے ان کی حکومت نے نظرثانی اور اپیل کو گڈمڈ کرکے راستہ نکالنے کی کوشش تھی جسے سپریم کورٹ کے فیصلے کے ذریعے ختم کر دیا گیا ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اس ایکٹ کے بارے میں پہلے دن سے یہ تاثر موجود تھا کہ یہ مخصوص شخصیات کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس لیے سپریم کورٹ نے اس کو کالعدم قرار دے کر آئین میں ترمیم کی تجویز دی ہے۔
تاہم سابق وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نواز شریف تاحیات نااہلی ویسے ہی ختم ہو چکی ہے۔
’ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ مجموعی طور پر عوامی مفاد میں بنایا گیا تھا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فیصلہ درست نہیں ہوا تو وہ اپیل کر سکے یا اس کے وکیل کی کارکردگی اچھی نہیں رہی تو وکیل تبدیل کر سکے۔‘

’فیصلہ سنانے کے لیے قومی اسمبلی کی تحلیل کا انتظار کیا گیا‘

سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سنایا گیا ہے جب ملک میں پارلیمنٹ کا وجود نہیں ہے۔ اس لیے قانونی اور سیاسی ماہرین کی جانب سے اس پر سوال بھی اُٹھائے جا رہے ہیں۔  

جمعے کو سنائے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ’ریویو آف ججمنٹ آئینِ پاکستان سے واضح طور پر متصادم ہے (فوٹو: اے ایف پی)

سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ ’آئین کے تحت قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کا کام فیصلے کرنا ہے۔ عدالتیں بار بار پارلیمان کے کام میں مداخلت کریں گے تو یہ اچھی روایت نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اس سے ادارے کمزور ہوں گے۔ آج کے فیصلے سے یہ تاثر جا رہا ہے کہ عدالت نے پارلیمان کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھایا ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ موجود نہیں ہے جو اس فیصلے کی روشنی میں مزید قانون سازی کر سکتی۔‘ 
ماہر قانون سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’کل جب یہ کیس کاز لسٹ میں آیا تو اسی وقت اس فیصلے کی ٹائمنگ پر سوال ذہن میں آ رہے تھے۔ مجھے کل ہی اس فیصلے کے بارے میں اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ کیا فیصلہ ہو گیا ہے۔‘
ان کے بقول ’اس فیصلے کی ٹائمنگ یہ ہے کہ پارلیمنٹ کا وجود نہیں ہے تو ایسے ہی ہے کہ اب حکومت کے پاس اس کو کوئی حل نہیں ہے۔ اس سے عدلیہ کا حوالے سے مزید بحران پیدا ہونے کا امکان ہے۔‘ 

’تکنیکی لحاظ سے سپریم کورٹ کا فیصلہ درست ہے‘ 

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ ’ہمارے ذہنوں میں کوئی شک نہیں کہ مجوزہ قانون کا اصل مقصد آرٹیکل 184/3 کے فیصلوں کے خلاف اپیل کا حق دینا تھا۔‘ 
’پارلیمنٹ سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار سے متعلق قانون سازی نہیں کر سکتی بلکہ اس کے لیے آئین کے آرٹیکل 184، 188 اور 191 میں ترمیم ضروری ہے۔ طے شدہ اصول ہے کہ سادہ قانون آئین میں تبدیلی یا اضافہ نہیں کر سکتا۔ سپریم کورٹ رولز میں تبدیلی عدلیہ کی آزادی کے منافی ہے۔‘ 
اس حوالے سے جسٹس ریٹائرڈ شائق عثمانی کا کہنا ہے کہ ’طویل عرصے سے یہ بحث ہو رہی ہے کہ از خود نوٹس کے تحت جن مقدمات کا فیصلہ کیا جاتا ہے اور اس میں اپیل کا حق بھی نہیں ہے تو اس کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لحاظ سے تو یہ قانون درست تھا لیکن سپریم کورٹ کے اختیارات آئین کے ذریعے طے کیے گئے ہیں اس لیے ان میں ردوبدل بھی آئینی ترمیم کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’آئین و قانون اور تکنیکی اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ فیصلہ درست ہے۔‘

سابق وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد نواز شریف تاحیات نااہلی ویسے ہی ختم ہو چکی ہے (فوٹو: روئٹرز)

ایڈووکیٹ حافظ احسان کھوکھر نے کہا کہ پاکستان کا آئین سپریم کورٹ کو کسی بھی قانون کو کالعدم قرار دینے کا اختیار دیتا ہے۔ بظاہر قانون کے ذریعے سپریم کورٹ کے اختیارات میں ردوبدل درست عمل نہیں تھا۔ جس وجہ سے سپریم کورٹ نے اس کو کالعدم قرار دیا ہے اور قرار دیا ہے کہ اس طرح کے ردوبدل کے لیے آئینی ترامیم کی جائیں۔  

’فیصلہ بڑے بینچ سے کروانا چاہیے تھا‘

سپریم کورٹ کے جس بینچ نے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ  2023 کو کالعدم قرار دیا ہے اس میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر شامل ہیں۔
پی ڈی ایم کی حکومت میں شامل جماعتیں ان تین ججوں سمیت کچھ دیگر ججوں پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے کہہ چکی ہیں کہ ان سے متعلق مقدمات یہ جج نہ سُنیں۔
اس کیس کی سماعت کے دوران بھی اٹارنی جنرل اور دیگر فریقین کی جانب سے لارجر بینچ بنانے کا مطالبہ کیا گیا لیکن اسے سنا نہیں گیا۔ اب جب یہ فیصلہ سامنے آیا ہے تو ماہرین کا کہنا ہے کہ فیصلہ اس بینچ کو نہیں کرنا چاہیے تھا۔  
سیاسی امور کے ماہر احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ ’کسی بھی قانون کو کالعم قرار دینا ایک غیر معمولی اقدام ہے۔
’ایسا فیصلہ ان ججز کی طرف سے کیا جائے جن کے بارے میں یہ تاثر عام ہو کہ وہ خاص قسم کے فیصلے کرتے ہیں عدلیہ کی ساکھ کے لیے بہتر نہیں ہے۔ بہتر ہوتا کہ یہ فیصلہ کسی بڑے بینچ سے کرایا جاتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ تاثر مزید اُبھر کر سامنے آیا ہے کہ عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان محاذ آرائی تھی اور قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے باوجود یہ محاذ آرائی برقرار ہے۔‘
سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یاسین آزاد نے کہا کہ ’سپریم کورٹ کا یہ کہنا کہ پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کا اختیار نہیں ہے غلط ہے کیونکہ پارلیمان نے نظرثانی کو ہی اپیل قرار دینے کا درمیانی راستہ نکالا تھا۔‘
ان کے مطابق اس قانون کو کالعدم قرار نہیں دینا چاہیے تھا بلکہ بہتر ہوتا کہ اس پر  بڑا بینچ بلکہ سپریم کورٹ کے تمام ججوں پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جاتا جو فیصلہ کرتا تو بہتر ہوتا۔  

شیئر: