Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

جب پنجاب میں چار سی ٹی ڈی اہلکاروں نے ایک ڈاکٹر کو اغوا اور پھر قتل کیا

اغوا کے وقت ڈاکٹر اپنے کلینک میں موجود تھے۔ (فوٹو: فری پک)
ضلع جھنگ کے ایک چھوٹے سے قصبے وریام والا کے ایک نجی ہسپتال کے گیٹ پر شام کے قریب ایک گاڑی رکی۔ گاڑی میں چار افراد سوار تھے۔ ایک شخص نے گیٹ پر گارڈ کو دروازہ کھولنے کا کہا اور بتایا کہ گاڑی میں ایک سیریس مریض ہے۔
گارڈ نے فوری دروازہ کھول دیا۔ چاروں افراد کار میں سے نکلے اور آن کی آن میں سکیورٹی گارڈ کو کنٹرول کر لیا۔ چاروں افراد اسلحہ سے لیس تھے اور وہ سکیورٹی گارڈ کی بندوق بھی چھین چکے تھے۔ ان چاروں افراد نے سکیورٹی گارڈ کو گن پوائنٹ پر کہا ’ہمیں ڈاکٹر کے دفتر لے چلو‘
یہ ہسپتال جس میں یہ مسلح افراد داخل ہوئے اس کا نام آمنہ میڈی کیئر ہاسپٹل ہے۔ اور یہ وریام والا قصبے کے اودھ پلازہ میں واقع ہے۔
ہسپتال کے مالک ڈاکٹر عمر اس وقت اپنے دفتر میں موجود تھے ان کا ہسپتال سے نکلنے کا وقت ہو چکا تھا اچانک ان کا دروازہ کھلا اور چار افراد سکیورٹی گارڈ کو گن پوائنٹ پر لیے اندھر گھس آئے۔
ایک شخص نے سکیورٹی گارڈ کو دبوچے رکھا اور باقی تین نے ڈاکٹر عمر کو پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پاؤں باندھ کر انہیں کار کی ڈگی میں رکھا اور سکیورٹی گارڈ کو باندھ کر اسی دفتر میں پھینک دیا اور تیزی میں وہاں سے نکل گئے۔

جب سسٹم حرکت میں آیا

ڈاکٹر عمر کے اغوا کی خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ ون فائیو پر اطلاع کے بعد تھانہ وریام والا کی پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی اور گارڈ نے پوری روداد سنائی۔
پولیس نے ڈاکٹر عمر کے والد محمد رفیق کی مدعیت میں مقدمہ درج کر لیا۔ محمد رفیق نے بتایا کہ ’میرے لیے یہ خبر کسی قیامت سے کم نہ تھی۔ میرے بیٹے کا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں تھا۔ مجھے یہی گمان تھا کہ یہ کوئی اغوا برائے تاوان کا واقعہ ہے۔ پولیس مجھے تسلیاں دے رہی تھی کہ وہ جلد ملزمان تک پہنچ جائیں گے لیکن مجھے تسلی نہیں ہو رہی تھی۔‘
ایف آئی آر درج ہونے کے بعد سسٹم حرکت میں آ گیا۔ آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان نے اس واقعے پر نوٹس لیا اور ایک سپیشل ٹیم ترتیب دی جو ان اغوا کاروں کو ڈھونڈنے کے لیے سر گرم ہو گئی۔

آئی جی پنجاب نے ملزمان کے پکڑنے کے لیے سپیشل ٹیم ترتیب دی۔ (فوٹو: پنجاب پولیس)

پولیس ملزمان تک کیسے پہنچی؟

ضلع جھنگ کے ڈی پی او ملک طارق محبوب نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہمارے لیے یہ ایک مشکل کیس تھا کیونکہ ابتدائی تفتیش میں ہمارے سامنے کوئی ایسی بات نہیں آئی جس سے کوئی راستہ نکلے کہ آخر کون ہے جو اتنی منصوبہ بندی کے ساتھ ایک ڈاکٹر کو اغوا کر کے لے گیا اور اس کے پیچھے محرکات کیا ہو سکتے ہیں۔‘
پولیس نے اغوا کا مقدمہ درج کر لیا تھا لیکن ابھی تک نہ تو اغوا کی وجوہات سامنے آ رہی تھیں اور نہ کوئی اور سراغ مل رہا تھا۔
تفتیشی ٹیم سے ٹیکنالوجی کی مدد لینے کا فیصلہ کیا گیا۔ ایک طرف جیو ٹیگنگ اور دوسری طرف ڈاکٹر عمر کے موبائل ڈیٹا سے نئی طرح سے چھان بین شروع کی۔ اور پھر پولیس کے سامنے جو حقائق آنا شروع ہوئے وہ ہلا کے رکھ دینے والے تھے۔
ڈی پی او طارق محبوب نے بتایا کہ ’تکنیکی اور ٹیکنالوجی سپورٹ سے جو پہلی بات سامنے آئی وہ ایک پولیس اہلکار شرجیل الرحمان سے متعلق تھی۔ جن کے ٹریسز اس ہسپتال کے ارد گرد ملے اور مسلسل ان کی موجودگی دیکھی گئی وہ سی ٹی ڈی کے اہلکار ہیں۔
شواہد اتنے زیادہ تھے کہ پولیس نے شرجیل الرحمان کو بالآخر حراست میں لے لیا۔
شرجیل پولیس کی حراست میں تھے اور انہوں نے جلد ہی سارے معاملے کو پولیس کے سامنے کھول رکھ دیا۔

ملزم شرجیل نے اپنے جرم کا اعتراف کر لیا ہے۔ (فائل فوٹو)

ترجمان جھنگ پولیس کے مطابق ’ملزم شرجیل نے گرفتاری کے بعد اس بات کا اعتراف کر لیا کہ وہ اور ان کے تین ساتھیوں نے مل کر ڈاکٹر عمر کو اغوا کیا۔‘
شرجیل الرحمان کے دیگر ساتھیوں میں داؤد شفیق، عمر فاروق اور عادل اقبال شامل تھے۔ پولیس تفتیش کے مطابق چاروں سی ٹی ڈی کے اہلکار تھے اور انہوں نے ڈاکٹر عمر کو ان کے ہسپتال سے اغوا کرنے کے بعد گلا گھونٹ کر قتل کیا اور ایک بوری میں بند کر کے نہر میں پھینک دیا۔

قتل کیوں کیا؟

پولیس کے مطابق ملزم شرجیل نے اعتراف کیا کہ وہ کافی عرصے سے ڈاکٹر عمر کی طاق میں تھے۔ انہیں اس بات کا شک تھا کہ ڈاکٹر عمر کے ان کی بیوی کے ساتھ تعلقات تھے۔ جس کی وجہ سے انہوں نے ڈاکٹر عمر کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔ اور اس حوالے سے اپنے تین کولیگز کو ساتھ ملایا اور بالآخر ڈاکٹر عمر کو اغوا کیا اور بعد میں قتل کیا۔
ملزمان کی گرفتاری کے بعد پولیس نے پہلے سے موجود مقدمے میں اغوا کے بعد قتل کی دفعات بھی شامل کر لی ہیں۔ چاروں سی ٹی ڈی  اہلکار اس وقت  پولیس ریمانڈ مکمل کے بعد جیل منتقل کیے جا چکے ہیں۔

شیئر: