Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’ترسیلات زر اور ایکسپورٹ میں کمی‘، اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 302 روپے ہو گئی

ایکسچینج کمپنیز کے سیکریٹری ظفر پراچہ کے مطابق ڈالر کی قیمت میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں کاروباری ہفتے کے پہلے دن پاکستانی روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں اضافہ ریکارڈ ہوا۔ کاروبار کے بند ہونے پر انٹر بینک میں ڈالر کی قیمت 291 روپے 51 پیسے اور اوپن مارکیٹ میں 302 روپے 15 پیسے ہو گئی ہے۔
 
معاشی ماہرین کے مطابق ترسیلات زر اور ایکسپورٹ میں کمی کے ساتھ ساتھ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے روپے پر دباؤ دیکھا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے میں طے شدہ شرائط بھی ڈالر کی قیمت بڑھنے کی ایک وجہ ہے۔
فاریکس ڈیلرز کے مطابق رواں ہفتے کاروبار کے پہلے روز سے ہی امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے پر دباؤ دیکھا گیا۔
منگل کو کاروبار کے آغاز پر انٹربینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمت میں ایک روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے اگلے دو گھنٹے میں ڈالر انٹر بینک میں ڈھائی روپے اور اوپن مارکیٹ میں دو روپے مہنگا ہو گیا۔ اس اضافے کے بعد انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر 291 روپے 75 پیسے پر اور اوپن مارکیٹ میں 298 روپے کی سطح پر ٹریڈ کر رہا تھا۔

ڈالر کی قیمت میں اضافے کی کیا وجوہات ہیں؟

ایکسچینج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں ڈالر کی قیمت میں اضافے کی کئی وجوہات ہیں۔ ایک جانب پاکستان آئی ایم سے قرض لینے کے لیے ایسی شرائط تسلیم کر چکا ہے جن کو پورا کرنا ملکی معیشت کے لیے آسان نہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف کی یوں تو کئی شرائط مشکل ہیں لیکن انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کے ریٹ کے توازن کو برقرار رکھنا اور امپورٹ کی کھلی چھوٹ دینا پاکستانی معیشت کے لیے آسان نہیں۔ ترسیلات زر اور ایکسپورٹ میں مسلسل کمی کی وجہ سے پاکستانی کرنسی پہلے ہی دباؤ میں ہے اور ایسی صورتحال میں ڈالرز کا مسلسل باہر جانا ملکی معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔‘
ظفر پراچہ کا مزید کہنا تھا کہ ’عام طور دیکھا جاتا ہے کہ جانے والی حکومت اپنے سیاسی معاملات کو بہتر رکھنے کے لیے مشکل فیصلے نگراں حکومت کے ذمے چھوڑ جاتی ہے۔ ایسا ہی معاملہ اب بھی نظر آ رہا ہے۔ اسی لیے سرمایہ کار محتاط ہیں۔‘

فاریکس ڈیلرز کے مطابق رواں ہفتے امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے پر دباؤ دیکھا گیا۔ (فوٹو: اے ایف پی)

کیا سیاسی عدم استحکام بھی ملکی کرنسی پر اثر انداز ہو رہا ہے؟

معاشی امور کے ماہر سینیئر صحافی حارث کے مطابق ملک میں سیاسی عدم استحکام روپے کی قدر میں کمی کی ایک اہم وجہ ہے۔ نگراں وزیراعظم کی تقرری کے بعد کابینہ کی تشکیل ابھی باقی ہے اور سرمایہ کار نظریں لگائے بیٹھے ہیں کہ وزارت خزانہ کا قلمدان کس کے سپرد کیا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرض کے لیے جن سخت شرائط پر قرضہ لیا ہے ان شرائط کو ہر صورت پورا کرنا ہے۔ بیرون ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے پیسے کم بھیجے جارہے ہیں اور ہماری ایکسپورٹ کے نمبر میں اچھے نہیں ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستانی روپے کی قدر کو برقرار رکھنا آسان نہیں ہوگا۔

روپے کی قدر میں بہتری کیسے ممکن ہے؟

حارث ضمیر کا کہنا ہے کہ روپے کی قدر میں بہتری کے لیے نگراں حکومت کو چند اہم مشکل فیصلے کرنے ہوں گے۔ انہیں اپنی آمدنی اور اخراجات پر نظرثانی کرنی ہوگی۔ اخراجات میں کمی ہوگی۔  
ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ حکومت کو برائے راست آمدنی کی مد میں پیسے ملک میں لانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔ اوورسیز پاکستانیوں کو پاکستان پیسے بھیجنے میں آسانی کرنا بہتر ضروری ہے اس کے علاوہ ملک میں ایسے حالات پیدا کرنے ہونگے کے سرمایہ کار بلا خوف ملک میں سرمایہ کاری کر سکیں۔

شیئر: