یوگینی پریگوژن کی ہلاکت، روس کا بین الاقوامی قوانین کے تحت تحقیقات سے انکار
یوگینی پریگوژن کی ہلاکت، روس کا بین الاقوامی قوانین کے تحت تحقیقات سے انکار
بدھ 30 اگست 2023 10:08
صدر ولادیمیر پوتن نے یوگینی پریگوژن کو باغی قرار دیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
روس نے طیارہ حادثے کی تحقیقات بین الاقوامی قوانین کے تحت کرنے سے انکار کر دیا ہے جس میں پرائیویٹ ملیشیا گروپ ’ویگنر‘ کے سربراہ یوگینی پریگوژن سوار تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روس نے متعلقہ تحقیقاتی ایجنسی کو آگاہ کر دیا ہے کہ وہ برازیل ساختہ طیارہ ایمبریئر لیگیسی 6 کے تباہ ہونے کی تحقیقات ’فی الحال‘ بین الاقوامی قوانین کے تحت نہیں کرے گا۔
خیال رہے کہ پرائیویٹ ملیشیا گروپ ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوژن دو اعلٰی عہدیداروں اور چار باڈی گارڈز کے ہمراہ طیارے میں سوار تھے جب دارالحکومت ماسکو کے قریب حادثے کا شکار ہوا۔
دو ماہ قبل یوگینی پریگوژن نے روسی وزارت دفاع کے خلاف بغاوت کا اعلان کیا تھا اور صدر ولادیمیر پوتن کے لیے ایک چیلنج بنتے جا رہے تھے۔
طیارہ حادثوں کی جانچ پڑتال کرنے والے برازیلی ادارے (سی ای این آئی پی اے) کا کہنا ہے کہ اگر روس کی جانب سے ہونے والی تحقیقات بین الاقومی قوانین کے مطابق ہوئیں تو وہ دعوت ملنے پر ان میں شریک ہوں گے۔
روس کی ایوی ایشن اتھارٹی کے لیے برازیلی ادارے کی شرائط ماننا لازمی نہیں ہے تاہم سابق تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ امریکی اور مغربی حکومتوں کی جانب سے کریملن کے ملوث ہونے سے متعلق الزامات کے بعد روس ان پر کو عمل درآمد کرنا چاہیے۔
اقوام متحدہ کی سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کے مطابق ماسکو سے سینٹ پیٹرزبرگ جانے والی فلائیٹ اندرونی پروازوں میں شمار ہوتی ہے لہٰذا اس پر بین الاقوامی قوانین لاگو نہیں ہوتے۔
برازیلی ادارے کے سربراہ ایئر بریگیڈیئر مارسیلو مارینو کا کہنا ہے کہ روس پر ایسا کرنا فرض نہیں ہے لیکن اگر تحقیقات کا آغاز کیا گیا، تو دعوت ملنے پر برازیل ان میں شامل ہوگا۔
امریکی ایوی ایشن سیفٹی کنسلٹنٹ اور سابق تفتیش کار جان کاکس کا کہنا ہے کہ برازیل کی شمولیت کے بغیر روسی تحقیقات پر ہمیشہ سوال اٹھائے جائیں گے۔
برازیلی ادارے سی ای این آئی پی اے اور طیارے بنانے والی کمپنی ایمبریئر مستقبل میں ہونے والے ممکنہ حادثات کی روک تھام کے لیے تحقیقات کرنا چاہتی ہے تاہم روس کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
23 جون کو پریگوژن نے روسی وزیر دفاع کے خلاف بغاوت کا اعلان کرتے ہوئے اپنے جنگجوؤں کے ہمراہ یوکرین سے ماسکو کی طرف مارچ شروع کر دیا تھا۔
صدر ولادیمیر پوتن نے پریگوژن کو باغی قرار دیا تھا لیکن بعد میں ویگنر کے سربراہ کے خلاف الزامات ختم کر دیے گئے تھے۔
بغاوت کے کئی دن بعد کریملن کی جانب سے بیان جاری ہوا کہ صدر پوتن اور ویگنر کے سربراہ کے درمیان تین گھنٹے طویل ملاقات ہوئی ہے۔
اس ملاقات کے بعد ویگنر کے کچھ جنگجوؤں نے بیلاروس کا رخ کیا لیکن پریگوژن اور ان کے نیم فوجیوں کے مستقبل کے حوالے سے شکوک و شبہات کا اظہار ہوتا رہا۔