Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا پاکستان کی میدان میں ’دشمنی‘ دوستی میں کیسے بدل رہی ہے؟

انڈیا پاکستان کا میچ کی سنسنی کم نہیں ہوئی، نہ ہی میچ سے قبل دِلوں کی دھڑکنیں کم ہوئی ہیں لیکن کھلاڑیوں کے درمیان نفرت ضرور کم ہوئی ہے. (فوٹو: کرک انفو)
کرکٹ کی دنیا میں پاکستان اور انڈیا بلاشبہ سب سے بڑے روایتی حریف ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان کرکٹ کی تاریخ میں ہائی وولٹیج میچ ہوئے ہیں جہاں دونوں ٹیموں کے مداح تو دل پکڑ کر بیٹھے ہی ہیں وہیں میدان میں کھلاڑوں کے درمیان بھی خوب گرما گرمی نظر آئی ہے۔
پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ عام مقابلے نہیں بلکہ کھیل کی جنگ سمجھے جاتے ہیں تاہم پچھلی ایک دہائی میں جہاں دونوں ٹیمیں کے درمیان کرکٹ میچ کم ہوئے ہیں وہیں کھلاڑیوں کے درمیان بھی یہ دشمنی تیزی سے دوستی میں بدل رہی ہے۔
اگر دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے درمیان گرما گرمی کی بات کی جائے تو اُس کا سلسلہ 1992 کے ورلڈ کپ سے شروع ہوتا ہے جب سڈنی میں کھیلے گئے میچ کے دوران پاکستانی بیٹر جاوید میانداد اور انڈین وکٹ کیپر کرن مورے کے درمیان خوب بحث مباحثہ دیکھنے میں آیا اور یہاں تک کے کرن مورے کو تنگ کرنے کے لیے جاوید میانداد نے چھلانگیں لگانا شروع کر دیں۔
 

جاوید میاں داد میدان میں غصہ اور مذاق دونوں انداز میں دکھائی دیتے

سنہ 1996 کے ورلڈ کپ کے تاریخی بنگلورمیں کھیلے گئے کوارٹر فائنل میں عامر سہیل اور وینکٹیش پرساد کے درمیان خوب زبانی لڑائی ہوئی جس کا نقصان پھر عامر سہیل کو وکٹ کی صورت میں ہی اٹھانا پڑا۔
سنہ 2004 میں آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی میں شعیب اختر اور راہُل ڈراوڈ آمنے سامنے آئے اور اتنی قریب آگئے کہ دونوں کے درمیان جسمانی ٹکراؤ کو فوری طور انضام نے بھانپ لیا اور بیچ بچاؤ کروایا۔
2007 سے لے کر 2012 تک پاکستان اور انڈیا کے درمیان سب سے ہائی وولٹیج میچ 2010 کے ایشیا کپ کا میچ تھا جس میں پاکستانی وکٹ کیپر کامران اکمل اور انڈین بیٹر گوتم گمبھیر جبکہ اُسی میچ میں شعیب اختر اور ہربھجن سنگھ کے درمیان بھی خوب گالم گلوچ ہوتی نظر آئی۔
 

گوتم گھمبیر اکثر پاکستانی کھلاڑیوں سے نالاں نظر آتے (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)


شعیب اختر ہربھجن سے الجھ پڑے لیکن دونوں کی دوستی بھی ہے (فوٹو: ایسوسی ایٹڈ پریس)

دونوں روایتی حریفوں کے درمیان میدان کی یہ دشمنی 2016 کے ایشیا کپ کے بعد دوستی میں بدلی جب محمد عامر اور وراٹ کوہلی کے درمیان پریکٹس سیشن کے دوران خوشگوار ملاقات ہوئی جس میں وراٹ کوہلی نے اپنا کرکٹ بیٹ محمد عامر کو تحفے میں دیا۔
یہ صرف دو کھلاڑیوں کے درمیان ملاقات ہی نہیں تھی، وہ وراٹ کوہلی کا تحفہ ہی نہیں تھا بلکہ وہ نئی نسل کے کرکٹرز کے درمیان محبت کا وہ بیج تھا جو اُس کے سات برس بعد ایک درخت بن چکا ہے۔

یہ دشمنی دوستی میں بدلتے بدلتے وقت لگا (فوٹو: اے ایف پی)

اس کی پہلی مثال 2021 کے آئی سی سی ٹی20 ورلڈ کپ کے میچ میں ملی جب پاکستان کی شاندار جیت کے بعد وراٹ کوہلی نے محمد رضوان اور بابر اعظم کو اپنی باہوں میں لے لیا۔
2020 سے 2022 تک وراٹ کوہلی جب اپنے کیریئر کے سب سے مشکل ترین دور میں تھے تو بابر اعظم کے ایک ٹویٹ نے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا۔ وہ ٹویٹ نہیں بلکہ نئی نسل کے کرکٹر کے درمیان محبت کا پروانہ تھا۔
 

بابر اعظم کا کوہلی کے لیے پیغام۔ (فوٹو: سکرین گریب)

اُس کے اگلے برس ایشیا کپ میں بابر اعظم اور وراٹ کوہلی کے درمیان ملاقات نے دونوں ٹیموں کے کھلاڑیوں کے دل میں مزید پیار کو پروان چڑھایا اور پھر یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔
کبھی مداحوں نے شاہین آفریدی اور رشبھ پنت کے درمیان خوشگوار جملے دیکھے تو کبھی روہت شرما اور امام الحق کی درمیان مسکراتی ہوئی ملاقات دیکھی۔ 
اب شاید 90 کی دہائی والی انڈیا پاکستان کرکٹ تبدیل ہو کر نئے عہد میں چلی گئی ہے۔ شاید اب کھلاڑی بھی ایک دوسرے سے لڑنا نہیں چاہتے۔ یہی وجہ ہے کہ کامران اکمل اور اشانت شرما کے درمیان ہونے والی لڑائی اب حارث رؤف اور وراٹ کوہلی کے مصحافے میں بدل گئی ہے۔
 

حارث رؤف اور وراٹ کوہلی خوشگوار موڈ میں (فوٹو:سکرین گریب)

شاید گوتم گمبھیر اور شاہد آفریدی کے درمیان ہونے والی گالیوں اور دھمکیوں سے بھرپور جھڑپ شاداب خان اور ہاردک پانڈیا کے درمیان مسکراہٹ میں تبدیل ہوگئی ہے۔
انڈیا پاکستان کا میچ کی سنسنی کم نہیں ہوئی، نہ ہی میچ سے قبل دِلوں کی دھڑکنیں کم ہوئی ہیں لیکن کھلاڑیوں کے درمیان نفرت ضرور کم ہوئی ہے۔

شیئر: