نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کا آغاز، توقعات کیا ہیں؟
نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کا آغاز، توقعات کیا ہیں؟
ہفتہ 9 ستمبر 2023 7:06
انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی میں دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں والے 20 ممالک کی تنظیم جی20 کے سربراہی اجلاس کا آغاز ہو گیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق وزیراعظم نریندر مودی نے نئی دہلی میں جی 20 سربراہی اجلاس کے افتتاحی خطاب میں کہا کہ ’دنیا اعتماد کے بحران کا شکار ہے۔ اگر ہم کووڈ کو شکست دے سکتے ہیں تو ہم باہمی اعتماد کے اس بحران کو بھی ہرا سکتے ہیں۔‘
وزیراعظم نریندر مودی سنیچر کو عالمی رہنماؤں کا استقبال کرنے کے لیے نئی دہلی کے منڈپم کنونشن سینٹر پہنچے۔ نریندر مودی نے سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان، امریکی صدر جو بائیڈن سمیت دیگر عالمی رہنماؤں کا استقبال کیا۔
افریقی یونین نے انڈین وزیراعظم وزیراعظم نریندر مودی کی دعوت پر جی20 کے نئے رکن کے طور پر اپنی نشست باضابطہ طور پر سنبھال لی۔
بلاک کی توسیع انڈین وزیراعظم کے لیے ایک قابل ذکر سفارتی کامیابی ہے جو رواں سال اس فورم کی میزبانی کر کے ایک بین الاقوامی سیاستدان کے طور پر اُبھرے ہیں۔
اپنی افتتاحی تقریر سے پہلے نریندر مودی نے افریقی یونین کے صدر اور کوموروس کے صدر ازلی اسومانی کو گلے لگا کر خوش آمدید کہا۔
انہوں نے کہا کہ ’انڈیا نے افریقی یونین کو مستقل رکنیت دینے کی تجویز پیش کی۔ مجھے یقین ہے کہ اس پر ہم سب کا اتفاق ہے۔ سب کی منظوری سے میں افریقی یونین کے سربراہ سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جی 20 کے مستقل رکن کے طور پر اپنی نشست سنبھالیں۔‘
عرب نیوز کے مطابق سالانہ اجلاس کے موقع پر انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کو بین الاقوامی ایئرپورٹ سے شہر کے مرکز تک رنگ برنگے پودوں، فواروں، سٹریٹ لائٹس، برقی قمقموں اور جی20 کے لوگوز کے ساتھ سجایا گیا ہے۔
For a #G20, which is more inclusive and more vocal for Global South!
PM @narendramodi warmly invites President @_AfricanUnion & Comoros Azali Assoumani to join other G20 leaders as African Union becomes a permanent member of the G20.
تین کروڑ 30 لاکھ پر مشتمل آبادی والے شہر کے کچھ حصے بھی سنسان ہیں کیونکہ کچھ مرکزی سڑکیں بند کر دی گئی ہیں جبکہ ایک لاکھ 30 ہزار سکیورٹی اہلکار اجلاس کی سکیورٹی کے لیے تعینات تھے۔
لیکن یہ جی 20 اجلاس کیا ہے، رواں سال کا سربراہی اجلاس کیوں اہم ہے اور ہمیں اس سے کیا امید رکھنی چاہیے؟
دنیا کی 20 بڑی معیشتوں کا گروپ 1990 کی دہائی کے آخر میں ایشیائی مالیاتی بحران کے تناظر میں قائم کیا گیا تھا تاکہ اس قسم کے معاملات کا اجتماعی طور پر حل نکالا جائے۔
اب اس گروپ نے ہنگامی عالمی مسائل جیسے کہ خوراک، موسمیاتی تبدیلی اور 2021 میں یوکرین پر روسی حملے کے عالمی اثرات کو حل کرنے کے لیے ایک فورم کی شکل اختیار کر لی ہے۔
گروپ کے ارکان میں 20 ممالک ارجنٹینا، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، انڈیا، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا، ترکی، برطانیہ اور امریکہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔
ہر سال گروپ کی قیادت ایک مختلف رکن کرتا ہے جو اس کی پالیسی میٹنگز اور اختتامی اجلاس کی میزبانی کرتا ہے۔ انڈیا نے گزشتہ سال انڈونیشیا سے جی 20 کی صدارت سنبھالی تھی جسے وہ برازیل کے حوالے کردے گا۔
رواں سال کا جی20 سمٹ گروپ کا 18 واں اور میزبان کے طور پر انڈیا کا پہلا اجلاس ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی اور ان کی کابینہ نے اس بات کو یقینی بنایا کہ اس اجلاس کی میزبانی کو ملک بھر میں نمایاں کیا جائے جس کی وجہ سے یہ اجلاس انڈیا کے عالمی طاقت بننے کے امیج کو اُجاگر کرنے کی مہم بن چکا ہے۔
بنگلور میں عوامی پالیسی مرکز تکشاشیلا انسٹی ٹیوشن کے ایک تحقیقی تجزیہ کار آدتیہ رام ناتھن نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’انڈیا نے ماضی میں کسی دوسرے میزبان ملک کے مقابلے میں اس سربراہی اجلاس پر زیادہ توجہ دی ہے۔ اس کا مطلب واضح طور پر یہ ہے کہ تمام اہم ایونٹس زیادہ ہائی پروفائل ہیں اور ان سے انڈیا کے لیے اچھی پریس پیدا ہونے کا امکان ہے۔
انڈیا کی چاند کے قطب جنوبی پر کامیاب لینڈنگ اور پچھلے ہفتے پہلے شمسی مشن کے آغاز کے فوراً بعد منعقد ہونے والا یہ اجلاس کتنا کامیاب ہو گا اس کا انحصار صرف انڈیا پر نہیں ہے۔
آدتیہ رام ناتھن نے کہا کہ ’جی 20 آج چند سال پہلے سے زیادہ منقسم ہے۔ عالمی سیاست 2020 کے بعد سے تین عوامل کی وجہ سے ڈرامائی طور پر تبدیل ہوئی ہے: وبائی بیماری، روس-یوکرین جنگ، اور چین کے کئی ممالک کے ساتھ بگڑتے تعلقات۔‘
چین کے تعلقات نہ صرف امریکہ بلکہ انڈیا کے ساتھ بھی کشیدہ ہیں اور گزشتہ تین برسوں سے ہمالیائی سرحد پر وقفے وقفے سے اس کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن کے بعد چینی صدر شی جن پنگ دوسرے سربراہ مملکت ہیں جنہوں نے سربراہی اجلاس میں شرکت نہ کرنے کا عندیہ دیا۔
ولادیمیر پوتن گزشتہ سال انڈونیشیا میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں بھی موجود نہیں تھے۔ یہ پہلا موقع ہو گا جب کسی چینی رہنما نے 2008 میں منعقد کیے گئے اجلاس کے بعد کسی سربراہی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔
تاکشاشیلا انسٹی ٹیوشن میں چائنا سٹڈیز کی فیلو منوج کیولرامانی کہتی ہیں کہ’ایسا نہیں ہے کہ بیجنگ گروپ کی اہمیت کو نہیں سمجھتا تاہم وہ انڈیا کی گلوبل ساؤتھ کے رہنما کے طور پر توثیق ہوتے نہیں دیکھنا چاہتا۔‘