پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی اور فری لانسرز کے ڈالرز اکاؤنٹس کی رکاوٹیں دور کیوں نہیں ہو رہیں؟
پاکستان میں ڈیجیٹل کرنسی اور فری لانسرز کے ڈالرز اکاؤنٹس کی رکاوٹیں دور کیوں نہیں ہو رہیں؟
پیر 11 ستمبر 2023 5:48
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
سٹیٹ بینک حکام کے مطابق ملک میں ڈیجیٹل کرنسی کے فروغ پر بینک نے پالیسی نافذ کر رکھی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے نگراں وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی ڈاکٹر عمر سیف نے ملک کی آئی ٹی برآمدات میں فوری اضافے کے لیے وزیراعظم سے ایک جامع منصوبے کی منظوری حاصل کی ہے، اور اعلان کیا ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی کے فروغ اور ادائیگیوں کے بین الااقوامی نیٹ ورکس کو پاکستان لانے کے علاوہ فری لانسرز کے فارن کرنسی اکاؤنٹس کے ذریعے آئی ٹی برآمدات میں اضافے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے جائیں گے۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جانب سے فراہم کی گئی معلومات کے مطابق نگراں وزیر ڈاکٹر عمر سیف اس سلسلے میں بہت متحرک ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ یہ تمام کام چند ماہ کی قلیل مدت میں مکمل کر لیے جائیں۔
وزارت کی طرف سے جاری کی گئی تفصیلات کے مطابق جن امور پر فوری کام ہو رہا ہے اور جن کے بارے میں نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے منظوری دی ہے ان میں آئی ٹی برآمدات کو دس ارب ڈالر تک پہنچانے کے لیے تمام رکاوٹوں کا فوری خاتمہ، معروف پیمنٹ گیٹ وے پے پال اور اسٹرائپس کو پاکستان لانے، بیرونی ذرائع سے کمائے گئے ڈالر بینک سے نکلوانے کی حد مقرر کرنے، آئی ٹی فری لانسرز کے اکاؤنٹس کے مسائل کا خاتمہ اور کارپوریٹ ڈیبیٹ کارڈز کے اجراء کے ذریعے ڈالر اکاؤنٹس میں ترسیلات کے اقدامات شامل ہیں۔
فنانشل ٹیکنالوجی اور آئی ٹی فروغ کے لیے حکومتی اقدامات
حکام کے مطابق نگراں وزیراعظم نے ان تمام اقدامات پر پیشرفت کے لیے خزانہ، سٹیٹ بینک، ایف بی آر، تجارت اورتوانائی کے محکموں کو وزارت آئی ٹی سے مشاورت کی ہدایت بھی کی ہے۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مطابق بالخصوص ڈیجیٹل کرنسی کے فروغ اور فری لانسرز کے ڈالرز اکاؤنٹس کو فعال بنانے میں درپیش رکاوٹوں کا جلد خاتمہ ہو جائے گا اور گذشتہ ہفتے نگراں وزیر ڈاکٹر عمر سیف نے سٹیٹ بینک کے عہدیداران سے اس سلسلے میں ملاقات بھی کی ہے، جس کے بعد توقع کی جارہی ہے کہ یہ امور اگر چند ہفتوں میں نہیں تو چند ماہ میں ضرور طے پا جائیں گے۔
تاہم سٹیٹ بینک کے مطابق ان کاموں پر پیشرفت میں ابھی وقت لگ سکتا ہے۔
ڈالر اکاؤنٹس، ڈیجیٹل کرنسی پالیسی کے لیے مزید مشاورت درکار
سٹیٹ بینک کے ایک سینیئر عہدیدار نے اردو نیوز کو بتایا کہ ڈاکٹر عمر سیف نے بینک کے اعلٰی حکام سے ملاقات ضرور کی ہے، لیکن یہ ایک ابتدائی نشست تھی اور اس میں آگے بڑھنے کے لیے ابھی کچھ بھی طے نہیں ہوا اور نہ ہی کسی دستاویز پر کوئی بات ہوئی ہے۔
ڈاکٹر عمر سیف کی خواہش ہے کہ فری لانسرز کے فارن کرنسی اکاؤنٹس پر عائد 35 فیصد سرمایہ استعمال کرنے کی پابندی ختم کر کے ان کو سو فیصد یا اس سے کچھ کم سرمایہ استعمال کرنے کی اجازت دے دی جائے تاکہ ملک میں زیادہ سے زیادہ غیر ملکی کرنسی آئے۔
تاہم سٹیٹ بینک حکام کے مطابق موجودہ صورتحال میں فارن کرنسی اکاؤنٹس کے معاملات میں تبدیلی ایک غور طلب معاملہ ہے اور اس سلسلے میں سٹیٹ بینک نے پہلے ہی کافی غور و خوص کے بعد حکمت عملی مرتب کی ہے۔
’ڈاکٹر عمر سیف کی اپنی ایک سوچ ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے کے لیے وہ اپنے وژن کو عملی جامہ پہنانا چاہتے ہیں، لیکن آگے بڑھنے کے طریقہ کار کے بارے میں صورتحال تبھی واضح ہو گی جب تمام دستاویزات سامنے رکھ کر معاملات پر ہر زاویے سے مشاورت ہو گی۔‘
سٹیٹ بینک حکام کے مطابق ملک میں ڈیجیٹل کرنسی کے فروغ اور غیر ملکی کرنسی اکاونٹس دونوں معاملات پر بینک نے پالیسی نافذ کر رکھی ہے اور اس میں تبدیلی کے لیے صورتحال کا مکمل جائزہ لینا ضروری ہے۔
کیو آر کوڈ کے ذریعے ادائیگیوں میں رکاوٹ کی وجہ
جہاں تک گلی محلوں میں ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال کا معاملہ ہے تو اس کے متعلق تمام بینکوں نے سٹیٹ بینک کی ہدایت پر ایک انفراسٹرکچر بنا لیا ہے اور عوام کو اس طرف راغب کرنے کے لیے آگاہی مہم بھی چلائی جا رہی ہے۔
ملک میں کئی مقامات پر کیو آر کوڈ کو سکین کر کے ادائیگیوں کی سہولت موجود ہے، لیکن اس کو ہر جگہ پہنچانے کے لیے ابھی وقت لگے گا۔
کیو آر کوڈ کے ذریعے ادائیگیاں دنیا میں تیزی سے فروغ پاتا رحجان ہے اور بالخصوص پاکستان کے پڑوسی ممالک انڈیا اور چین میں اس کا بہت زیادہ استعمال ہو رہا ہے۔ لیکن پاکستان میں بوجوہ اس کا فروغ سست روی کا شکار ہے۔
معاشی معاملات کے سینیئر صحافی مہتاب حیدر کے مطابق پاکستان ریگولیشن اور سکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل کرنسی کے میدان میں پیچھے رہ گیا ہے۔
ریگولیشن اور سکیورٹی خدشات بڑی رکاوٹیں
’پاکستان میں ریگولیشن اور ٹیکنالوجی کے بہت مسائل ہیں۔ یہاں تک کہ کئی علاقوں میں فائبر کیبل تک نہیں بچھ سکی۔ یہاں ہر چیز کو سکیورٹی کے آئینے سے دیکھا جاتا ہے اور یہ ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے میں رکاوٹ ہے۔‘
اس وقت دنیا بھر میں ای والٹ فروغ پا رہا ہے، یعنی کہ آپ کے پیسے آپ کے پاس الیکٹرونک صورت میں موجود ہوں گے اور آپ اسی صورت میں انہیں آگے منتقل کریں گے۔
مہتاب حیدر نے بتایا کہ اس کے لیے سٹیٹ بینک نے چار پانچ سال پہلے کچھ چیزیں کی تھیں لیکن ریگولیشن ابھی تک نہیں لے کر آئے۔
حکام ٹیکنالوجی سے خوفزدہ ہیں
انہوں نے کہا کہ پاکستان میں کچھ شعبوں کے لوگ ٹیکنالوجی سے ڈرتے ہیں۔
’پاکستان کے فیصلہ ساز ٹیکنالوجی فرینڈلی نہیں ہیں۔ ہمارے ہاں بینکوں کے پاس بھی جدید معاشی نظام کے لیے ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے اور وہ اس میں سرمایہ کاری نہیں کررہے۔ اگر اب بھی پاکستان نے معاشی نظام کو ٹیکنالوجی پر منتقل نہ کیا تو یہ ریاست بہت پیچھے رہ جائے گی۔‘
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ایک سینئیر عہدیدار کے مطابق خزانے اور ٹیکس کے محکموں کے اعلیٰ عہدیدار بھی فنانشل ٹیکنالوجی کے نظریے سے مکمل متفق نہیں ہیں اور وہ معیشت کو ٹیکنالوجی کے ساتھ جوڑنے کے عمل میں سستی کا باعث ہیں۔
ڈالرز اکاؤنٹس بدنظمی دوبارہ ایف اے ٹی ایف میں پھنسا سکتی ہے
مہتاب حیدر کے مطابق غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس کے فروغ کے لیے بھی بہت زیادہ ڈاکومینٹیشن کی ضرورت ہے۔
اس کے متعلق سٹیٹ بینک کو سہولیات دینی چاہیں اور متعلقہ دستاویزات کو نظام سے منسلک کرنا چاہیے کیونکہ ان اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کا خدشہ ہوتا ہے۔
’اگر بغیر ڈاکومینٹیشن کے فارن کرنسی اکاؤنٹس کو فروغ دیا گیا تو نہ صرف یہ کہ منی لانڈرنگ میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ پاکستان دوبارہ ایف اے ٹی ایف کی نظروں میں بھی آ سکتا ہے۔‘