Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

شہر المواسات، غریبوں اور ناداروں کا درد مند

حدیث شریف میں رمضان المبارک کوخیرخواہی کا مہینہ کہا گیا، گویایہ دوسروں کے دکھ درد بانٹنے کا مہینہ ہے
 
رمضان المبارک کا مہینہ کئی اعتبار سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اس مہینہ میں قرآن مجید نازل ہوا جو انسانوں کیلئے اللہ تعالیٰ کا آخری پیغام ہے۔ اس مہینہ میں وہ رات ہے جسکو قرآن کریم میں لیلۃ مبارکہ یعنی مبارک رات کہا گیا ہے۔ اس مہینہ کے آخر میں عیدالفطر ہے جو رب العالمین کی طرف سے روزہ داروں کو انعام دیئے جانے کا دن ہے۔ اس مہینہ کے 3 حصے ہیں۔ پہلے10 دن اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دن ہیں، دوسرے10 دن اللہ تعالیٰ کی طرف سے مغفرت او رمعافی کے دن ہیں اور تیسرے اور آخری 10 دن جہنم کی آگ سے چھٹکارہ پانے کے دن ہیں۔اس مہینے کو قرآن کا مہینہ بھی کہا جاتاہے،اسے تقویٰ اور تزکیہ کا مہینہ بھی کہا جاتاہے۔ یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اتمام ِنعمت کا مہینہ ہے۔ خیر و برکت کا مہینہ ہے، رحمت و مغفرت کا مہینہ ہے اور بندوں کی طرف سے اپنے رب کی کامل اطاعت، اسکے سامنے مکمل خودسپردگی اور اپنے مالک کے سامنے کامل عاجزی اور فرماں برداری کا نام ہے۔
 
حدیث شریف میں رمضان المبارک کے مہینے کو ’’شہر المواساۃ‘‘یعنی خیرخواہی کا مہینہ بھی کہا گیاہے۔ اس طرح یہ مہینہ گویا انسانوں کے درمیان خیر خواہی اور دوسروں کے دکھ درد بانٹنے کا مہینہ ہے۔ معاشرے کے کمزور اور محروم افراد کے مسائل کو سمجھنے اور ان کا تجربہ کرنے کا مہینہ ہے اور اپنی خوشحالی اور وسعت و کشادگی میں انکو شامل کرنے کا مہینہ ہے۔رمضان المبارک کی انفرادیت یہ ہے کہ صبح سے شام تک وہ کھانا پینا، لذیذ غذائیں اور نفسانی خواہشات جو حلال تھیں، انکا استعمال ممنوع ہوجاتاہے۔ جن نعمتوں سے انسان سال بھر محظوظ ہوتاہے وہ نعمتیں ایک خاص وقت تک منع ہوجاتی ہیں۔اللہ تعالیٰ کو کسی کو بھوکا پیاسا رکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس وقت اسکو بھوکا پیاسا رکھنے کا مقصد یہ ہے کہ بہت سے انسان جنہوں نے کبھی بھوک کا مزہ نہیں چکھا، جنہیں کبھی پیاس کی شدت کا احساس نہیں ہوا، جنہیں کبھی لذتوں سے محرومی کا تجربہ نہیں ہوا، جنکو بھوک سے پہلے کھانا موجود ملا اور پیاس سے پہلے پانی حاضر، وہ اپنے اس بھائی کے درد اور تکلیف کا اندازہ کرسکیں جسکو ایک وقت کھانا میسر ہے تو دوسرے وقت فاقہ ہے، ایک چیز موجود ہے تو دوسری موجود نہیں۔ اس طرح اس کی برکت سے انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے دکھ ، درد اور انکی آزمائشوں کا بذات خود تجربہ کرتا ہے اور اسکے اندر اپنے بھائیوں کی تکلیف کو دور کرنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ انسان جب تک خود تکلیف سے دوچار نہیں ہوتا ا سکو تکلیف کا صحیح ادراک نہیں ہوتا اور جب تک اسکو تکلیف کا صحیح ادراک نہیں ہوگا اسوقت تک اس تکلیف میں مبتلا لوگوں کیساتھ اسکو حقیقی خیر خواہی بھی پیدا نہیں ہوسکتی۔ حقیقی خیرخواہی کا جذبہ اس وقت بیدار ہوتا ہے جب حقیقی تکلیف کا احساس ہو۔ اس مہینہ میں کشادہ دست اور تنگ دست دونوں ایک کیفیت سے دوچار ہوجاتے ہیں اوردونوں کے درمیان ایک وقتی لیکن حقیقی مساوات پیدا ہوجاتی ہے اور یہ مساوات خوشحال لوگوں کو بدحال لوگو ںکی خیر خواہی پر ابھارتی ہے۔ 
 
روزہ کی حالت میں انسان کا بھوکا پیاسا رہنا اللہ تعالیٰ کو مطلوب نہیں بلکہ اس بھوک پیاس کے ذریعے جو دوسرا مقصد ہے وہ ہے ضبطِ نفس کی تربیت۔ اگر کوئی شخص بھوکا پیاسا رہے اور محض اللہ کے حکم سے خود اختیاری طور پر باوجود بھوک کے نہ کھائے اور باوجود پیاس کے نہ پیئے تو اسے ضبطِ نفس اور اپنے اوپر قابو کی بے مثال قوت حاصل ہوگی۔ ضبطِ نفس معمولی بات نہیں ۔ دنیا کے اکثر جھگڑے، فسادات او رباہمی اختلافات کا اصل سبب ضبط نفس کی کمی ہے۔ ہر انسان میں انانیت اور خود پسندی کا جذبہ ہوتا ہے۔ جسوقت کوئی اسکے اس جذبے کو ٹھیس پہنچاتا ہے تو اسکا نفس بے قابو ہوجاتا ہے اور وہ ایسے کام کر بیٹھتا ہے جو بسا اوقات بڑی خرابی اور تباہی کا سبب بنتے ہیں۔ روزہ انسان کو باوجود قدرت کے رکے رہنے اور صبر و ضبط سے کام لینے کی مشق کراتا ہے اور پھر اس کا عملی اظہار بھی کراتا ہے چنانچہ حدیث شریف میں ہے کہ’’ اگر کوئی شخص روزہ رکھے لیکن برائیوں سے نہ رکے، غیبت اور جھوٹ کو ترک نہ کرے، لڑائی اور جھگڑا کرتا ہے تو اس کو سوائے بھوکا پیاسا رہنے کے روزے سے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘ یہی بات ایک دوسری حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ’’ بہت سے روزے دار ایسے ہیں جنکو انکے روزے سے بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
 
حدیث میں بہت وضاحت کیساتھ آیا ہے کہ’’ جو شخص روزے رکھے تو اس کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ بری باتوں سے اجتناب کرے اور اگر کوئی دوسرا اس سے جھگڑا کرے تو بھی جھگڑے میں شریک نہ ہو بلکہ یکطرفہ طور پر صبر سے کام لے اور جھگڑا کرنیوالے سے کہے کہ میں روزے سے ہوں یعنی جھگڑا نہیں کروںگا۔روزہ انسان کے اندر صبر اور برداشت کا مادہ پیدا کرتا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ روزہ اس صبر و ضبط کا ایک تربیتی نصاب ہے۔ انسان کی بنیادی ضرورت کھانا پینا ہے۔ روزے میں وہ ان ضروریات سے رکتاہے اور باوجود قدرت، اشتہا اور تقاضے کے ان جائز چیزوں سے بھی احتراز کرتا ہے۔ اسی طرح ایک بڑا مسئلہ انسان کیساتھ اس کی ’’انا‘‘ کا ہوتاہے۔ کسی سے اسکے مزاج کیخلاف کوئی بات کہی جائے تو وہ فوراً چراغ پا ہوجاتا ہے اور فریقِ مخالف سے جھگڑا کرتا ہے لیکن روزے کی حالت میں جس طرح بھوک اور پیاس پر صبر کرنا ضروری ہے، اسی طرح انانیت پر بھی قابو رکھنا ضروری ہے۔ جو شخص اس تربیتی نصاب کو حسب ہدایت پوار کریگا تو یقین ہے کہ اسکے بقیہ ایام میں بھی یہ تربیت اسکو غریبوں کا ہمدرد، کمزوروں کا معاون اور معاشرے کا ایک اچھا انسان بننے میں مدد دیگی۔
 
صبر اور برداشت معمولی قوت نہیں ۔ یہ طاقت کے استعمال سے بڑی طاقت ہے۔ حضرت نظام الدین اولیاءؒ  کا قول ہے ’’ برداشت کرنے والا تو مار ڈالتا ہے۔‘‘ اس کا مطلب یہی ہے کہ جسے برداشت کی قوت حاصل ہوگئی اس کو بڑی طاقت حاصل ہوگئی ایسی طاقت کہ ہر طاقت اس کے سامنے کمزور ہوجاتی ہے۔
 
رمضان المبارک کا مہینہ آتا ہے تو اپنے ساتھ بہت سی بھلائیاں، برکتیں اور رحمتیں لیکر آتاہے۔ اس مہینہ میں فرائض کا ثواب 70 گنا بڑھا دیا جاتا ہے اور نوافل کا ثواب فرض کے برابر کردیا جاتا ہے۔ اس مہینہ میں مال خرچ کرنے کا بھی ثواب بڑھ جاتا ہے۔ لوگ اپنے مالوں کی زکاۃ بالعموم اسی مہینہ میں نکالتے ہیں اور نفل صدقات بھی کثرت سے کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول کے بارے میں حضرت ابن عباسؓ بیان فرماتے ہیں کہ’’ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو آپ  کی محبت اور شفقت او رلوگوں کی امداد میں بہت اضافہ ہوجاتا تھا۔‘‘ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ’’ آپبہت سخی تھے لیکن رمضان المبارک میں آپ کی سخاوت تیز آندھی کی طرح ہوجاتی تھی۔ ‘‘عام مسلمان جن کیلئے اللہ کے رسول اسوۂ حسنہ ہیں، وہ بھی اس سے بہرہ مند ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور جتنا وہ سال بھر میں بھی لوگوں کی امداد نہ کرتے ہوں رمضان المبارک میں اس سے زیادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
 
یہ ہیں اس ماہِ مبارک کی برکتیں اور رحمتیں۔ ایک طرف یہ رب العالمین کی بے پایاں داد ودہش اور انعام و اکرام کا مہینہ ہے تو دوسری طرف لوگوں کیساتھ انعام و اکرام اور جود وسخا رسول اللہ  کی سنت کا عملی نمونہ ہے۔ اس مہینہ میں روزہ کے ذریعہ انسان کی تربیت ہوتی ہے، اس کو ضبط ِنفس اور خود پر قابو رکھنے کی ٹریننگ دیجاتی ہے۔ اس کوعملاً دکھایاجاتاہے کہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے ہر وقت بہرہ مند ہونے والے ان نعمتوں سے محروموں کا درد سمجھ سکیں، پھر انکو مختلف صدقات نافلہ اور صدقہ فطر وغیرہ کے ذریعے جود و سخا اور غریبوں اور محتاجوں کا مدد کرنے والا بن جاتاہے۔
 

شیئر: