ان کا مزید کہنا ہے کہ ’اتوار اور پیر کو صرف دو دنوں میں سانپ کے ڈسنے کٖے 13 واقعات رپورٹ ہوئے۔ متاثرین میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔‘
’ڈیرہ بگٹی کے مختلف علاقوں سے سرکاری ہسپتالوں میں 13 افراد کو علاج کے لیے لایا گیا جن میں سے کئی کی حالت انتہائی تشویشناک ہوچکی تھی۔ انہیں بروقت اینٹی سنیک وینم ویکسین دے کر بچایا گیا۔‘
ڈاکٹر محمد اعظم بگٹی کا کہنا تھا کہ ’عام طور پر دو سے تین ویکسین لگانے کے بعد مریض ٹھیک ہوجاتے ہیں، تاہم اس بار ہسپتال لائے گئے زیادہ تر سانپ کے ڈسے افراد کو اوسطاً 10 سے 15 ویکسین لگانا پڑیں۔ ایک مریض کو تو 28 ویکسین لگا کر بچایا گیا۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’خوش قسمتی سے محکمہ صحت بلوچستان نے پہلے ہی ہمیں وافر مقدار میں ویکسین فراہم کردی تھی، اگر ویکسین دستیاب نہ ہوتی تو بڑا جانی نقصان ہو سکتا تھا۔‘
ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر جمعہ بگٹی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ایک نوجوان جماعت علی بگٹی کو آٹھ ویکسین لگانے کے باوجود بچایا نہیں جا سکا۔انہیں انتہائی زہریلے سانپ سنگچور نے کاٹا تھا۔‘
متوفی ڈیرہ بگٹی کے دور دراز علاقے کاکاری پشینی کے رہائشی تھے جہاں صحت کی سہولیات دستیاب نہیں۔ انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال پہنچاتے پہنچاتے تاخیر ہو گئی اور زہر ان کے جسم میں پھیل گیا جس نے ان کے اعصابی نظام کو مفلوج کرکے رکھ دیا۔
ڈی ایچ او ڈیرہ بگٹی ڈاکٹر اعظم بگٹی نے بتایا کہ ’سانپ کے کاٹنے کے زیادہ تر کیسز ڈیرہ بگٹی کے دور دراز پہاڑی علاقے تحصیل پھیلاوغ سے رپورٹ ہوئے ہیں جو ایک پسماندہ اور غربت زدہ علاقہ ہے۔‘
’میں خود اس علاقے سے تعلق رکھتا ہوں، زیادہ تر غریب طبقے کے افراد کو چارپائی نہ ہونے کی وجہ سے زمین پر سوتے ہوئے یا پھر کُھلی جگہ پر رفع حاجت کرتے ہوئے سانپ نے ہاتھ یا پاؤں پر ڈسا۔‘
ڈی ایچ او کے مطابق ’بارشوں کے بعد سانپ کے کاٹنے کے واقعات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ زیادہ تر کیسز موسم گرما یعنی اپریل سے اکتوبر کے دوران رپورٹ ہوتے ہیں، تاہم اکتوبر میں ٹھنڈ ہونے پر سانپ زیر زمین چلے جاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر اعظم بگٹی کا کہنا تھا کہ ’مریضوں میں کئی افراد کو سنگچور سانپ نے کاٹا جسے مقامی زبان میں چھلوؤ کہتے ہیں، یہ انتہائی زہریلے اور خطرناک سانپ ہوتے ہیں۔‘
بلوچستان میں سانپوں کے ڈسنے کے واقعات معمول ہیں۔ گذشتہ ماہ ڈیرہ بگٹی سے ملحق ضلع کوہلو میں سانپ کے ڈسنے کے بعد بروقت علاج اور ویکسین نہ ملنے پر ایک نوجوان کی موت ہوگئی تھی۔
اس واقع کے بعد نوجوان کے لواحقین نے احتجاج کیا اور کوہلو کے سرکاری ہسپتال کے عملے کے خلاف تھانے میں مقدمہ بھی درج کرایا۔
ایک رپورٹ کے مطابق ’پاکستان میں سانپوں کے ڈسنے کے سالانہ 40 ہزار سے زائد واقعات ہوتے ہیں جن میں سے بروقت علاج نہ ملنے پر تقریباً تین ہزار افراد مر جاتے ہیں۔‘
محکمہ صحت بلوچستان کے مطابق ’صوبے میں ہر سال سینکڑوں افراد سانپ کے ڈسنے کے باعث علاج کے لیے ہسپتالوں میں لائے جاتے ہیں۔‘
بلوچستان میں سانپوں پر تحقیق کرنے والے جامعہ بلوچستان کے شعبہ زولوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سعید احمد ایسوٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بلوچستان میں 44 اقسام کے سانپ پائے جاتے ہیں جن میں سے صرف 20 فیصد ہی زہریلے ہوتے ہیں۔‘
’دنیا میں زہریلے سانپوں کی چار بڑی اقسام ہیں اور یہ چاروں بلوچستان میں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان میں سے سنگچور یا کامن کریٹ سب سے خطرناک ہیں کیونکہ ان کے کاٹنے سے درد نہیں ہوتا۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’یہ پتلے اور تین سے چار فٹ لمبے ہوتے ہیں۔ ان کے کالے جسم پرسفید دھاریاں ہوتی ہیں۔ یہ زیادہ تر رات کے اوقات میں نقل و حرکت کرتے ہیں۔‘
ڈاکٹر سعید ایسوٹ کے بقول ’سنگچور کو خاموش قاتل کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے کاٹنے سے درد نہیں ہوتا اور انسان کو پتا ہی نہیں چلتا۔ جب پتا چلتا ہے اس وقت تک زہر جسم میں پھیل چکا ہوتا ہے۔‘
’اس کا زہر پھیپھڑوں اور اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتا ہے جس سے سانس لینے میں دشواری اور کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ اگر چار گھنٹوں کے اندر اندر علاج نہ ملے تو مریض کی موت یقینی ہو جاتی ہے۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’بلوچستان میں زہریلے سانپوں میں زیادہ تر بلیک کوبرا پائے جاتے ہیں جو سر اُٹھا کر حملہ کرتے ہیں، اگرچہ اس کے کاٹنے کے امکانات کم ہوتے ہیں تاہم اس کا زہر بھی سنگچور کی طرح اعصابی نظام کو مفلوج کر دیتا ہے۔‘
’زہریلے سانپوں کی تیسری قسم وائپر ہے جسے عام زبان میں لنڈی بھی کہا جاتا ہے، اسی طرح ایک اور قسم مقامی زبان میں جلیبی سانپ کہلاتی ہے جو سائز میں چھوٹے لیکن خطرناک ہوتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’لنڈی اور جلیبی سانپ ہیموٹاکسن ہوتے ہیں جن کا زہر خون کے گردشی نظام کو متاثر کرتا ہے اور ناک وغیرہ سے خون بہنا شروع ہوجاتا ہے، بروقت علاج نہ ملنے کی صورت میں دل کام کرنا چھوڑ دیتا ہے اور انسان کی جان چلی جاتی ہے۔‘
علم حیوانات کے ماہر نے بتایا کہ ’بلوچستان میں زیادہ تر سانپ زہریلے نہیں ہیں۔ لوگ زہریلے سانپوں کے ڈر سے غیر زہریلے سانپوں کو بھی مار دیتے ہیں جو درست نہیں۔‘
ان کے مطابق ’سانپ ہمارے ایکو سسٹم کے لیے بہت ضروری ہیں، یہ چوہوں اور فصلوں کو نقصان پہنچانے والے دیگر حیوانات کو کھاتے ہیں۔‘
ڈاکٹر سعید احمد ایسوٹ کے مطابق ’سانپ انسانوں سے ڈرتے ہیں اور وہ صرف خطرہ محسوس کرنے پر اپنے دفاع میں حملہ آور ہوتے ہیں اس لیے ان کے قریب جانے سے گریز کیا جائے۔‘
’سانپ کے کاٹنے کی صورت میں متاثرہ جگہ کو رسی سے مضبوطی کے ساتھ باندھا جائے اور ہِلنے جُلنے یا پیدل چلنے سے گریز کیا جائے تاکہ جسم میں خون کی گردش نہ ہو۔ اس کے بعد مریض کو فوری طور پر ہسپتال پہنچایا جائے تاکہ اس کا علاج شروع ہوسکے۔‘