Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’میڈیکل کالج فار ڈیرہ بگٹی‘: ’کیا آپ میری مدد کر سکتے ہیں؟‘

مہم سوئی آن لائن کے نام سے پیج چلانے والے ڈیرہ بگٹی کے رہائشی ریاض بگٹی نے شروع کی۔ (فوٹو: سوئی آن لائن)
بلوچستان کے ضلع ڈیرہ بگٹی کے نوجوانوں نے ضلعے میں میڈیکل کالج اور یونیورسٹی کے قیام کے لیے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر ایک مہم شروع کی ہے۔
اس مہم کو سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر خوب پذیرائی ملی ہے اور پاکستان میں ٹوئٹر پر یہ ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا۔
’میڈیکل کالج فار ڈیرہ بگٹی‘ کے ہیش ٹیگ سے مہم کا آغاز سوئی آن لائن کے نام سے پیج چلانے والے ڈیرہ بگٹی کے علاقے سوئی کے رہائشی ریاض بگٹی نے کیا۔
انہوں نے ٹویٹ کی کہ ’ہیلو پاکستان، میں سوئی ڈیرہ بگٹی سے ہوں، میرا شہر 1952 سے گیس فراہم کر رہا ہے، کیا آپ میڈیکل کالج حاصل کرنے کے لیے میری مدد کر سکتے ہیں؟‘
ان کو جواب دیتے ہوئے راولپنڈی سے ایک شہری نے لکھا کہ ’میں ایک پنجابی اور پاکستانی شہری کی حیثیت سے آپ کی حمایت کرتا ہوں۔‘
ٹوئٹر پر اس مہم کی بلوچستان کے سیاستدانوں اور سماجی کارکنوں کے علاوہ ملک کے دیگر حصوں سے بھی شہریوں نے حمایت کی ہے اور ڈیرہ بگٹی کے نوجوانوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کرنے کا مطالبہ کیا۔

ریاض بلوچ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ڈیرہ بگٹی 60 سالوں سے پورے ملک کو گیس فراہم کر رہا ہے مگر ’ہمارے ضلعے میں تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات دستیاب نہیں۔‘
ان کے بقول ’ڈیرہ بگٹی میں انٹرمیڈیٹ کالج ہے مگر اس کا معیار بھی بہتر نہیں۔ سوئی میں انٹرمیڈیٹ کالج کی عمارت ہی نہیں۔ ایک ملٹری کالج ہے مگر اس میں بھی پری میڈیکل کی کلاسز نہیں ہوتیں۔ پورے ضلعے میں کسی بھی یونیورسٹی کا کوئی کیمپس قائم نہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ضلعے کے بیشتر طلباء میٹرک کے بعد تعلیم چھوڑ دیتے ہیں یا پھر اپنے گھروں سے دور کوئٹہ یا ملک کے دیگر حصوں میں پڑھنے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پورے ڈیرہ بگٹی میں گائنا کالوجسٹ نہیں ملتی جس کی وجہ سے حاملہ خواتین کو تین گھنٹے کا مشکل سفر کر کے پنجاب کے ضلع رحیم یار خان لے جانا پڑتا ہے، اس دوران ہر سال سینکڑوں خواتین زچگی کے دوران مر جاتی ہیں۔
’کل ہی سوئی گیس فیلڈ میں کام کرنے والے ایک ملازم کی بیٹی دوران زچگی بیٹے سمیت فوت ہوگئی۔‘
ریاض بلوچ نے مزید کہا کہ ’اگر ڈیرہ بگٹی میں میڈیکل کالج قائم ہو جائے تو ضلعے میں صحت کی سہولیات بھی بہتر ہو جائیں گی۔‘

ان کے بقول ایک دہائی تک بدامنی کا شکار رہنے والا ضلع تعلیمی طور پر تباہ حال ہو چکا ہے مگر اب جبکہ ضلعے میں امن قائم ہو گیا ہے اور ایک ملٹری کالج بھی کامیابی سے چل رہا ہے تو یہاں ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کے لیے مزید سہولیات فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ یہ محروم ضلع بھی ترقی کی دوڑ میں باقی ملک کے برابر آ سکے۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے بھی ٹوئٹر پر اس مہم کی حمایت کی اور ڈیرہ بگٹی سے گیس نکالنے والی کمپنیوں پی پی ایل اور او جی ڈی سی ایل سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈیرہ بگٹی میں میڈیکل یونیورسٹی قائم کریں۔
ڈیرہ بگٹی سے رکن بلوچستان اسمبلی گہرام بلوچ اور ڈیرہ بگٹی سے تعلق رکھنے والے سابق وزیر داخلہ بلوچستان سینیٹر سرفراز بگٹی بھی ٹوئٹر پر اس مہم کا حصہ بنے اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان کو ٹیگ کرکے ان سے ڈیرہ بگٹی میں میڈیکل کالج قائم کرنے کی درخواست کی۔
ٹوئٹر پر اس مہم میں حصہ لیتے ہوئے ایک صارف اسلم خان نے لکھا کہ ’پانچ گیس فیلڈز رکھنے والے ڈیرہ بگٹی میں کوئی میڈیکل کالج نہیں۔‘
مجید بگٹی نے لکھا کہ ’تعلیم، گیس، پانی اور ہسپتال کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے ایسا لگتا ہے کہ ہم ڈیرہ بگٹی والے 70 سال پیچھے ہیں۔‘

’اگر ڈیرہ بگٹی میں میڈیکل کالج قائم ہو جائے تو صحت کی سہولیات بھی بہتر ہو جائیں گی‘ (فوٹو: ٹوئٹر)

شالی بلوچ نامی صارف نے لکھا کہ ڈیرہ بگٹی بلوچستان کے امیر اضلاع میں سے ایک ہے اور 1952 میں دریافت ہونے والی قدرتی گیس کے ذخائر کی وجہ سے جانا جاتا ہے مگر جب تعلیم کی بات کی جائے تو ضلعے میں گذشتہ ایک دہائی کے دوران تعلیمی نظام تباہ ہوچکا ہے۔
بولان میڈیکل یونیورسٹی کوئٹہ کی طالبہ ماہ رنگ بلوچ نے کہا کہ ’سوئی گیس کی ملکیت رکھنے والا ڈیرہ بگٹی بنیادی سہولت اور تعلیم کی سہولت سے محروم بلوچستان کے سب سے پسماندہ اضلاع میں سے ایک ہے جہاں خواتین کی بڑی تعداد زچگی کے دوران مر جاتی ہے۔‘
صبیحہ بلوچ نے لکھا ہے کہ نواب اکبر خان بگٹی کے نام سے دیگر شہروں میں سٹیڈیم وغیرہ منسوب ہو سکتے ہیں تو ڈیرہ بگٹی میں ان کے نام سے کالج یا یونیورسٹی کیوں نہیں بن سکتی؟

شیئر: