احسان اللہ کے لیے اپنے منصوبے پر عمل کرنے کے لیے یہ بہترین وقت تھا اور وہ اپنے ہدف کی تلاش میں تھا۔
علاقے کے تقریباً تمام ہی بچے کُھلے میدان میں کھیل رہے تھے۔ احسان اللہ ان بچوں کے قریب پہنچے اور انہوں نے اپنے پانچ سالہ بھتیجے ثنااللہ کو اپنے پاس بلایا اور اسے اپنے ساتھ گھمانے کے لیے لے گیا۔
ثنا اللہ نے راستے میں اپنے چچا احسان اللہ سے دریافت بھی کیا کہ ’کیا وہ اسے نہلانے کے لے جا رہے ہیں؟‘
احسان اللہ نے اثبات میں جواب دیا ور کہا کہ ’ہاں، میں تمہیں قریبی ندی میں نہلانے کے لے جا رہا ہوں۔‘
ثنااللہ کی خوشی دیدنی تھی۔اس دوران وقت گزرتا رہا اور شام سے رات ہو گئی۔ ثنا اللہ کا کچھ پتا نہ چل سکا جب کہ اس کے چچا احسان اللہ بھی گھر واپس آچکے تھے۔
گھر والے اب بھی یہی سوچ رہے تھے کہ ان کا بچہ ثنااللہ یہیں کہیں کھیل رہا ہوگا اور کچھ دیر میں واپس آجائے گا، تاہم ان کی یہ امید پوری نہ ہوئی۔
گھر والوں کو فکر ہونے لگی اور وہ سب ثنااللہ کی تلاش میں نکل پڑے۔ یہ پورا علاقہ جنگل نما ہے۔
آس پاس جوار کی فصل اور گھنے درختوں کے جنگلات ہیں۔ اُنہوں نے ثنا اللہ کو ہر جگہ تلاش کیا لیکن اس کا کوئی سراغ نہ مل سکا۔
وہ جب ثنااللہ کو تلاش کرکے تھک ہار گئے تو انہوں نے پیر بابا پولیس سٹیشن میں ثنااللہ کی گمشدگی کی رپورٹ درج کروائی تو ایس ایچ او افسان خان پولیس اہلکاروں کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے۔
ایس ایچ او افسان خان نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اُن کی ٹیم نے آس پاس کا سارا علاقہ چھان مارا لیکن بچے کا کچھ پتا نہ چل سکا۔
’ہمارا سرچ آپریشن خاصی دیر تک جاری رہا۔ اردگرد کے سارے مقامات بھی دیکھ لیے۔ ہم کوشش کر رہے تھے کہ کوئی ایک سراغ ہی مل جائے تو ہم اس بچے تک پہنچ جائیں۔‘
ان کے ’مطابق یہ خاندان اس قدر استطاعت نہیں رکھتا تھا کہ اغوا برائے تاوان کا شبہ کیا جا سکتا۔ ہم ہر زاویے سے اس کیس کو دیکھ رہے تھے۔‘
پیر بابا ملنگ درہ کے اس علاقے میں چند ہی گھر واقع ہیں اور یہ علاقہ مرکزی شاہراہ سے 15 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
ایس ایچ او افسان خان کے مطابق ’کسی بیرونی فرد کا یہاں آنا اور پھر اس قدر کم وقت میں واردات کر کے فرار ہو جانا مشکل تھا۔ ہم مختلف افراد کے بیانات بھی ریکارڈ کر رہے تھے اور گھروں کی تلاشی بھی لی جا رہی تھی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’جب کوئی سراغ نہ مل سکا تو میں نے اپنے تجربے کی بنیاد پر تین مشتبہ افراد کو حراست میں لے لیا۔ ان تین مشتبہ افراد میں کمسن ثنا اللہ کے چچا احسان اللہ اور ان کے نانا بھی شامل تھے۔‘
’ہم نے محض شک کی بنیاد پر ان تینوں افراد سے تفتیش کی کیوں کہ ان کے بیانات میں تضاد تھا اور ان کی حرکات و سکنات معمول سے ہٹ کر تھیں۔ ہم اپنی تفتیش کے ذریعے اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ یہ کوئی گھریلو مسئلہ ہے۔‘
پولیس افسر افسان خان کے بقول ’جب ان مشتبہ افراد سے تفتیش کی گئی تو احسان اللہ نے اپنے جُرم کا اعتراف کر لیا۔‘
ان کے مطابق ’ہم نے اِن مشتبہ افراد کے بیانات ریکارڈ کیے لیکن جب ہم بچے کے چچا احسان اللہ کا بیان قلم بند کر رہے تھے تو اُس نے خود اعتراف جُرم کر لیا۔‘
’احسان اللہ نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنے بھتیجے کو گھر سے مقامی ندی پر لے گیا اور پانی میں ڈبو دیا۔‘
احسان اللہ نے پولیس کو مزید بتایا کہ ’میں نے جب اپنے بھتیجے کو پانی میں ڈبویا تو وہ سانس نہیں لے پا رہا تھا اور ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔‘
’شاید وہ اپنے بچاؤ کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کا پورا سر پانی میں ڈُوبا تھا اور پھر جب اُس کی سانسیں بند ہوئیں تو تب میں نے اُسے باہر نکالا۔‘
احسان اللہ نے کمسن ثنااللہ کو قتل کرنے کے بعد لاش کو چٹان سے نیچے پھینک دیا۔
اِن چٹانوں پر اُوپر کی جانب سے پانی کا راستہ ہے اور اندر ایک غار سا بنا ہوا ہے جس میں اندھیرے کی وجہ سے کوئی شے بھی دکھائی نہیں دیتی۔ اس بچے کی لاش تین دن تک ان چٹانوں کے درمیان ہی پڑی رہی۔
ایس ایچ او افسان خان کے مطابق ’احسان اللہ نے اپنے بیان میں بتایا کہ اُن کے بڑے بھائی امان اللہ سعودی عرب میں مزدوری کرتے ہیں۔‘
’امان اللہ نے تین شادیاں کی ہیں۔ان کی دو بیویاں مر چکی ہیں اور ان دونوں سے ان کے تین بچے ہیں۔ تیسری اہلیہ زندہ ہیں جن کے بچے کو احسان اللہ نے قتل کیا۔‘
ملزم احسان اللہ نے پولیس اور عدالت کے روبرو بیان دیا کہ ’ان کی بھابھی کی گھر والوں کے ساتھ اکثر لڑائی ہوتی رہتی تھی اور وہ بچوں کو بلاوجہ مارتی رہتی تھیں۔‘
’میری بھابھی سوتیلے بچوں کو بار بار مارتی تھیں۔ وہ ان کا خیال نہیں رکھتی تھیں اور سب کو تنگ کرتی رہتی تھیں۔‘
ملزم ے مطابق ’انہیں جب بھی ایسا کرنے سے منع کیا جاتا تو وہ گھر والوں سے لڑنے لگ جاتیں۔ وہ میری والدہ کے ساتھ بھی جھگڑتی رہتی تھیں۔‘
احسان اللہ کے مطابق ’وہ اپنی بھابھی کو سبق سکھانا چاہتے تھے کہ انہیں بھی وہ درد محسوس ہو جو وہ دوسروں کو پہنچاتی ہیں۔‘
’میں صرف انہیں تکلیف دینا چاہتا تھا کہ دوسروں کے بچوں کو مارنا درست نہیں ہے اور یہ احساس دلانے کے لیے میں نے اُن کے اپنے بیٹے کو ہی مار ڈالا۔‘
ایس ایچ او افسان خان نے جب مجرم کا بیان قلم بند کیا تو اُن سے بچے کی لاش کے بارے میں بھی دریافت کیا۔
افسان خان کا کہنا ہے کہ ’اب ہمیں ساری کہانی سمجھ آگئی تھی لیکن بچے کی لاش اب تک نہیں ملی تھی۔‘
’ہم نے احسان اللہ سے دریافت کیا تو اُس نے ندی میں ان تین چٹانوں کی نشاندہی کی جہاں ثنااللہ کی لاش پھینکی گئی تھی۔‘
پولیس جب جائے وقوعہ پر پہنچی تو وہاں لاش موجود نہیں تھی۔ احسان اللہ دن کی روشنی میں ٹارچ لیے چٹانوں کے اندر غار میں داخل ہوئے اور اپنے ساتھ بچے کی لاش لے کر باہر آئے۔
یہ قیامت کا منظر تھا کیونکہ بچے کا پورا جسم پانی سے بھر چکا تھا اور اس کی لاش تین دن تک ان ہی چٹانوں کے درمیان پڑی رہی۔
افسان خان نے کہا کہ ’ہم نے احسان اللہ کا میڈیکل کروا لیا ہے وہ ذہنی طور پر بھی تندرست ہے۔ اس لیے اب اس کے خلاف مزید کارروائی عمل میں لائی جا رہی ہے۔‘