Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موسمیاتی بحران نے جہنم کے دروازے کھول دیے ہیں: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنی ابتدائی تقریر میں 2023 کے ’خوفناک درجہ حرارت‘ اور ’تاریخی آگ‘ کا ذکر کیا (فوٹو: اے ایف پی)
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے موسمیاتی اجلاس ’کلائمیٹ ایمبیشن سمٹ‘ کا آغاز کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانیت کو لگنے والی فوسل فیول کی لت نے ’جہنم کے دروازے کھول دیے ہیں۔‘
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انتونیو گوتریس جب یہ خطاب کر رہے تھے تو آلودگی پھیلانے والے بڑے ممالک چین اور امریکہ غیر حاضر تھے۔
بڑھتے ہوئے موسمی تغیرات اور ریکارڈ عالمی درجہ حرارت کے باوجود گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور تیل اور گیس کمپنیاں منافع کما رہی ہیں۔
اس فورم پر دنیا کے رہنما یا کابینہ کے وزراء مخصوص اقدامات کا اعلان کریں گے جن کا انہوں پیرس معاہدے کے تحت وعدہ کر رکھا ہے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے اپنی ابتدائی تقریر میں 2023 کے ’خوفناک درجہ حرارت‘ اور ’تاریخی آگ‘ کا ذکر کیا، لیکن انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ’مستقبل آپ جیسے لیڈروں نے لکھنا ہے۔‘
’ہم اب بھی عالمی درجہ حرارت میں اضافے کو 1.5 ڈگری تک محدود کر سکتے ہیں۔ ہم اب بھی صاف ہوا اور سب کے لیے سستی ماحول دوست توانائی کی دنیا بنا سکتے ہیں۔‘
اقوام متحدہ کے سربراہ نے واضح کیا کہ صرف ان رہنماؤں کو بات کرنے کی اجازت دی جائے گی جنہوں نے صفر گرین ہاؤس اخراج کو ممکن بنانے کے لیے ٹھوس منصوبے بنائے ہیں۔
خطاب میں حصہ لینے کے لیے 100 سے زائد درخواستیں موصول ہوئیں، لیکن اقوام متحدہ نے 41 مقررین کی فہرست جاری کی ہے جس میں چین، امریکہ، برطانیہ، جاپان یا انڈیا شامل نہیں ہیں۔
کئی بڑے رہنماؤں نے اس سال اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے لیے نیویارک کا دورہ کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی، جن میں چین کے صدر شی جن پنگ اور برطانیہ کے وزیر اعظم رشی سنک بھی شامل ہیں، جنہوں نے کہا کہ وہ بہت مصروف ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن، جنہوں نے منگل کو جنرل اسمبلی سے خطاب کیا، اپنے آب و ہوا کے ایلچی جان کیری کو میٹنگ میں بھیجا۔ حالانکہ کیری کو خطاب کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

نیو یارک میں ہزاروں کی تعداد میں آنے والے موسمیاتی کارکنوں اور خصوصاً نوجوانوں میں غصہ بڑھ رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

موسمیاتی تھنک ٹینک ’ای تھری جی‘ کے ایلڈن میئر نے کہا کہ ’اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں اور اخراج کرنے والوں کے اتنے زیادہ رہنماوں کی عدم موجودگی کا واضح طور پر سربراہی اجلاس کے نتائج پر اثر پڑے گا۔‘
نیو یارک میں ’مارچ ٹو اینڈ فوسل فیول‘ کے لیے گذشتہ ہفتے کے آخر میں ہزاروں کی تعداد میں آنے والے موسمیاتی کارکنوں، خاص طور پر نوجوانوں میں غصہ بڑھ رہا ہے۔
تاہم مبصرین یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہیں کہ کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور یورپی یونین کے صدر ارسلا وان ڈیر لیین اپنے اپنے مقاصد اور ترقی پذیر دنیا کے لیے مالیاتی وعدوں پر کیا کہتے ہیں۔
ترقی یافتہ معیشتوں نے 2009 میں وعدہ کیا تھا کہ وہ 2020 تک کم ترقی یافتہ ممالک کو سالانہ 100 بلین ڈالر فراہم کریں گے۔ یہ وعدہ ٹوٹ گیا، یہاں تک کہ جو فنڈز دیے گئے وہ بھی قرضوں کی شکل میں آئے۔
ایک فنڈ جس کا مقصد سب سے زیادہ کمزور اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے متاثر ہونے والی قوموں کو مالی امداد فراہم کرنا تھا اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا۔

شیئر: