اسلامی لشکر کا کسی نے مقابلہ نہیں کیا، اللہ کے رسولکی کامیاب پلاننگ سے کم لوگ قتل ہوئے ، صرف2 مسلمان جام شہادت نوش کرتے ہیں
* * * * *عبد المالک مجاہد۔ریاض* * * *
صلح حدیبیہ 6ہجری کے آواخر میں ہوئی۔ اللہ کے رسول حدیبیہ سے مدینہ طیبہ واپس تشریف لائے تو آپ نے بادشاہوں اور امراء کے نام خطوط ارسال فرمانے کا سلسلہ شروع کیا۔ محرم 7 ہجری میں غزوۂ خیبر ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ یہود کے خلاف مسلمانوں کو فتحِ عظیم سے ہمکنار کرتا ہے۔ خبیث یہودیوں کی قوت پاش پاش ہو چکی ہے۔ ان کی زمینوں، جائدادوں اور باغات پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا ہے۔کچھ علاقوں میں چھوٹی چھوٹی لڑائیاں ہوئی ہیں مگر دشمن پر لشکرِ اسلام کی قوت اور دھاک بیٹھتی چلی جا رہی ہے۔ذو القعدہ 7ہجری میں ’’عمرۃ القضاء‘‘ کے لئے آپمکہ تشریف لے جاتے ہیں۔ واپس آئے تو جمادی الاولیٰ 8ہجری میں معرکہ موتہ پیش آتا ہے۔ یہ معرکہ بھی تاریخ کا عجیب و غریب معرکہ تھا۔
مسلمانوں کی فوج صرف 3 ہزار اور رومی فوج 2لاکھ کے قریب تھی۔ سیدنا خالد بن ولید نہایت خوبصورتی سے اسلامی فوج کو بچاکر مدینہ طیبہ لے آتے ہیں۔ معرکہ موتہ کے بعد اسلام کی دعوت پہنچانے کا ایک نیا انداز اختیار کیاجاتاہے۔ مختلف ممالک کے بادشاہوں اور قبائل کے روساء کو خطوط لکھے جا رہے ہیں۔ انہیں پیغام دیا جا رہا ہے: ’’ہمیں تمہارے اقتدار اور حکومت سے غرض نہیں، اسلام قبول کر لو، تمہاری حکومت تمہارے ہی پاس رہے گی۔ ‘‘ ان میں سے بعض نے اسلام قبول کر لیا۔ ایران کے بادشاہ بد بخت کسریٰ نے اس خط کو پھاڑ ڈالا۔ اس نے اس خط کے ٹکڑے ٹکڑے کیا کئے کہ اس کی اپنی حکومت پاش پاش ہو گئی۔ مصر کے بادشاہ مقوقس نے نامۂ مبارک کی بہت عزت و توقیر کی۔
رسول اللہ کے قاصد کو بیش قیمت تحائف پیش کئے۔ اللہ کے رسولکی خدمت میںایک قیمتی خچر ارسال کیا اور ساتھ ہی اپنی قوم کی نہایت معزز بیٹی سیدہ ماریہ قبطیہ کو بھجوایا کہ اللہ کے رسولاس سے نکاح کر لیں‘پھر ایسا ہی ہوا۔ اللہ کے رسولنے اس خاتون سے نکاح کیا اور اس کے بطن سے آپکے صاحبزادے سیدنا ابراہیم پیدا ہوئے۔ آپ نے جو خط بحرین کے حاکم کے نام ارسال کیا تھا اسے پڑھ کر بحرین کے حاکم نے اسلام قبول کر لیا۔ ہجرت کا آٹھواں سال شروع ہو چکا ہے۔ جزیرۂ عرب میں اسلام کی ضیا پاشیاں عروج پر ہیں۔ اُدھر قریش کے حسد اور عناد میں مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ بظاہر تو وہ حدیبیہ کے میدان میں ہونے والے معاہدے کا احترام کر رہے ہیں مگر اندر ہی اندر اس کی خلاف ورزیاں شروع کرچکے ہیں۔ بنو بکر قریش کے حلیف تھے۔ مسلمانوں کے حلیف قبیلہ بنوخزاعہ سے بنو بکر کی صدیوں پرانی دشمنی چلی آ رہی تھی۔ صلح حدیبیہ ہی کے زمانے میں بنو بکر نے بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور ان کے 20 افراد کو قتل کر دیا۔ قریش نے رات کے اندھیرے میں نہ صرف اسلحہ سے ان کی مدد کی بلکہ خود بھی عملًا لڑائی میں شرکت کی۔ اس ظلم اور زیادتی کی شکایت لے کر بنو خزاعہ کا ایک سردار اور شاعر عمرو بن سالم خزاعی مدینہ طیبہ پہنچتا ہے، وہ اشعار پڑھ رہا ہے جن میں حلیف مسلمانوں سے مدد طلب کر تا ہے۔ وہ مظلوموں کا نمائندہ ہے، اس کے 20 رشتہ دار قتل ہو چکے ہیں۔ عمرو اللہ کے رسول کو صورت حال سے آگاہ کرتا ہے۔قریش کی غداری اور بد عہدی کا ذکر بڑے مؤثر انداز میں کرتا ہے۔ مسلمان اخلاقی طور پر بنو خزاعہ کی مدد کرنے کے پابند ہیں۔ کائنات میں ایسے معاہدوں کی پابندی کرنے والی سب سے بڑی شخصیت عمرو بن سالم سے فرما رہی ہے: ’’ عمرو بن سالم فکر نہ کرو( یوں سمجھو)تمہاری مدد ہوگئی۔‘‘
قریش اپنی کرتوتوں سے غافل نہیں، انہیں اپنی غلطی کا اعتراف ہے۔ ابو سفیان مدینہ آتا ہے کہ حالات کی اصلاح کرسکے۔ اس کی بیٹی ام المومنین سیدہ ام حبیبہؓ ،اللہ کے رسولکی زوجہ محترمہ ہیں۔ بیٹی کے گھر گیا تو رسول اللہ کے بستر پر بیٹھنے لگا ۔سیدہ ؓنے بستر کو الٹ کر تہہ کر دیا۔ حواس باختہ ہو کر پوچھتا ہے: یہ بستر میرے لائق نہیں یا میں بستر کے لائق نہیں۔ سیدہ ؓجواب میں فرما رہی ہیں: تم مشرک ہو اور یہ میرے پاک اور مقدس نبی کا بستر ہے، تم اس بستر کے لائق نہیںہو۔ کبیدہ خاطر ہو کر بیٹی کے گھر سے نکلا تو سیدنا ابوبکر صدیقؓ، سیدنا عمر فاروق ؓاور سیدنا علی ؓبن ابی طالب سے ملتا ہے۔
صلح کی درخواست کرتا ہے مگر وہاں سے ٹکا سا جواب ملتا ہے۔ ناکام ومراد ہو کر واپس مکہ آجاتا ہے۔ اللہ کے رسولنے نہایت خاموشی سے مکہ فتح کرنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں۔ راز داری کا عالم یہ ہے کہ مدینہ کے اطراف میں حفاظتی چوکیاں قائم کر دی گئی ہیں۔ کوئی اجنبی شخص نہ شہر کے اندر آ سکتا ہے نہ باہر جا سکتا ہے۔ حاطب بن ابی بلتعہ بدری صحابی ہیں۔ انہوں نے غلطی سے مکہ والوں کو خط لکھ کر سارہ نامی ایک لونڈی کے حوالے کیا کہ اسے مکہ لے جائے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے رسول کو اس کی خبر دے دی۔ وہ ابھی مکہ کے راستے ہی میں تھی کہ رسول اللہ کے ارسال کردہ دستے نے سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی قیادت میں اس کے سر کے بالوں میں سے خط کو برآمد کر لیا اورکسی کو بھی آپ کی تیاریوں کا علم نہ ہو سکا۔ مدینہ شریف میں اللہ کے رسولکے حکم سے مختلف علاقوں کے مسلمان جمع ہونا شروع ہو گئے۔ یہ رمضان المبارک کے مقدس اور مبارک مہینہ کی10 تاریخ تھی جب اللہ کے رسول10 ہزار مجاہدین کے ساتھ مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں۔ آپ سمیت بعض صحابہ نے رمضان کا روزہ رکھا ہوا تھا۔ آپنے عسفان اور قدید کے درمیان کدید نامی چشمے پر پہنچ کر عصر کے بعد روزہ توڑ دیا کہ سفر میں روزہ رکھنا ضروری نہیں اور مسافر کو اگرشدید مشقت کا سامنا ہو تو اس کے لئے روزہ رکھنا منع ہے۔ اسلام غیر ضروری مشقت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلمانوں کو یہ سہولت میسر ہے کہ وہ سفر میں روزہ افطار کرسکتے ہیں۔ آپنے روزہ توڑا تو اکثر صحابہ نے بھی روزہ توڑ دیا۔
چند صحابہ نے کہا: تھوڑی دیر بعد غروب آفتاب ہونے والا ہے ،ہم صبر کر سکتے ہیں۔ آپ کو علم ہوا تو 3 مرتبہ ارشاد فرمایا: یہ لوگ نافرمان ہیں۔ اسلام میں اللہ کے رسولکے احکامات اور آپ کی سنت پر عمل کئے بغیر دین داری کا کوئی تصور ہی نہیں ۔ راستہ میں جحفہ کے قریب آپکے چچا عباس بن عبدالمطلب مکہ سے مدینہ ہجرت کرتے ہوئے مل جاتے ہیں۔ یہ قدیم الاسلام تھے۔ مکہ کے قریب جا کر اسلامی لشکر پڑائو ڈالتا ہے۔ رات کا وقت ہے۔ اللہ کے رسول لشکر کو حکم دے رہے ہیں کہ تمام مجاہدین اپنی اپنی آگ جلائیں۔ وادی فاطمہ میں 10 ہزار چولہوں میں آگ جل رہی ہے۔ پہرے پر سیدنا عمر فاروق ہیں۔
یہ آگ مکہ میں نظر آ رہی ہے۔ اہل مکہ کہنے لگے: یہ آگ بنوخزاعہ نے جلائی ہے، مگر ابو سفیان کہنے لگا: نہیں! بنو خزاعہ اتنی بڑی تعداد میں نہیں ہو سکتے۔ سیدنا عباس بن عبدالمطلب اللہ کے رسولکے سفیربن کر خچر پر سوار ہو کر کیمپ سے باہر نکلے ہوئے ہیں کہ کوئی شخص، کوئی لکڑ ہارا مل جائے تو قریش کو پیغام بھجوا دوں کہ آپکے مکے میں داخلہ سے پہلے پہلے حاضر ہو کر امان طلب کر لیں۔ان کا کام اس وقت آسان ہو گیا جب انہوں نے دیکھا کہ عرب کا ذہین وفطین شخص ابو سفیان اپنے 2ساتھیوں سمیت اس آگ کے بارے میں معلوم کرنے کے لئے مکہ سے باہر نکلا ہوا ہے۔ وہ گفتگو کر رہا تھا کہ سیدنا عباس نے آواز پہچان لی۔ ارے !یہ تو ابو حنظلہ ہے۔ آواز دی: ابو حنظلہ، ابوسفیان بولا: ابوالفضل! میرے ماں باپ تجھ پر قربان ہوں، کہو کیا بات ہے؟۔ ابو الفضل بولے: یہاں اللہ کے رسولہیں۔
ہائے رے قریش کی تباہی… اب مسئلے کا حل کیاہے؟۔ ابو حنظلہ! میرے ساتھ خچر پر بیٹھ جائو، میں تمہیں اللہ کے رسولکے پاس لئے چلتا ہوں۔ تمہارے لئے امان طلب کرتا ہوں۔لوگ اللہ کے رسولکے خچر کو دیکھ رہے ہیں، اس پر2 آدمی بیٹھے ہیں اور امام المرسلین کے خیمہ کی طرف جا رہے ہیں۔ ارے یہ تو اللہ کے رسول کا خچرہے اور اس پر آپکے چچا سوار ہیں۔سیدنا عمر فاروق ؓکے الائو کے پاس سے خچر گزرا تو آپؓ نے ابو سفیان کو پہچان لیا۔ارے یہ تو اللہ کا دشمن ہمارے قابو میں آگیا ہے۔ وہ اللہ کے رسولکے خیمہ کی طرف بھاگ رہے ہیں کہ آپ سے اجازت لے کر ابو سفیان کو قتل کر دیں۔ ادھر سیدنا عباس نے بھی خچر کو ایڑ لگا دی ہے۔ سیدنا عباسؓ پہلے پہنچ گئے ہیں۔ یا رسول اللہ! میں نے ابو سفیان کو امان دی ہے۔ یہ گفتگو ہورہی ہے کہ سیدنا عمرؓ بھی پہنچ جاتے ہیں۔ عرض کر رہے ہیں: اللہ کے رسول!اجازت دیجیے میں ابو سفیان کی گردن مار دوں۔ مگر میں اسے پناہ دے چکا ہوں سیدنا عباسؓ عرض کر رہے ہیں۔ اللہ کے رسولنے ارشاد فرمایا: ’’عباس اسے اپنے ڈیرے پر لے جائو ،صبح میرے پاس لے آنا، اس وقفہ میں اللہ رب العزت ابو سفیان کا سینہ کھول دیتے ہیں اور وہ اسلام قبول کر لیتے ہیں۔ اللہ کے رسولنے ان کو معاف کر دیا۔ انہیں امان دے دی گئی۔
اللہ کے رسول لشکر کی دائیں جانب (میمنہ) پر خالد بن ولیدکو، بائیں جانب (میسرہ) پر زبیر بن عوام کو اور درمیانی حصہ (قلب) پر ابو عبیدہ بن جراح کو قیادت سونپتے ہیں۔ یہ 17رمضان المبارک منگل کی صبح تھی جب اسلامی لشکر مکہ کی طرف بڑھتا ہے۔ سیدناابوسفیانؓ کو ایک حکمت عملی کے تحت پہاڑی کے دامن میں روکا جاتا ہے تاکہ وہ اسلامی لشکر کی وسعت اور قوت کا بچشم خود مشاہدہ کر سکیں۔ ان کے ہمراہ سیدنا عباس بن عبدالمطلب ہیں جو انہیں پرچم لہراتے قبائل کے بارے میں بتاتے جارہے ہیں۔ انصار کا پرچم سیدنا سعد بن عبادہ ؓکے پاس تھا۔اِنہوں نے سیدنا ابو سفیان کو دیکھا تو ان کی اسلام کے ساتھ دشمنیاں یاد آگئیں، کہنے لگے: آج خونریزی اور مار دھاڑ کا دن ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد اللہ کے رسول وہاں سے گزرے تو ابوسفیان نے آپ سے سعد کی شکایت کردی۔
آپنے سعد سے پرچم لے کر ان کے بیٹے قیس کے حوالے کر دیا۔ اُدھر ابو سفیان تیزی سے مکہ پہنچتے ہیں۔ وہ بلند آواز سے کہہ رہے ہیں: قریش کے لوگو !وہاں محمد ہیں۔ ان کے ساتھ اتنا بڑ ا لشکر ہے کہ ہم اس کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ سنو! جو شخص ابوسفیان کے گھر میں آ جائے یا بیت اللہ شریف میں چلا جائے، یا اپنے گھر کا دروازہ بند کر کے اندر بیٹھ جائے اسے امان ہے۔ ابو سفیان کی بیوی ہند اسلام کی شدید دشمن تھی، اسے خاوند کی بات پسند نہ آئی۔ ابوسفیان کی مونچھ پکڑ کر کہہ رہی ہے: لوگو! اس بزدل شخص کو پکڑو، اسے مار ڈالو۔ ابو سفیان قریش سے مخاطب ہیں: مکہ والو! اس عورت کی باتوں میں نہ آنا۔ صورت حال یہ ہے کہ ہم واقعی مقابلہ نہیں کر سکتے۔ تھوڑے سے سر پھرے عکرمہ بن ابی جہل‘ صفوان بن امیہ اور سہیل بن عمرو کی کمان میں خندمہ کے علاقے میں جمع ہوئے۔
خندمہ کے علاقے میں سیدنا خالد بن ولید سے ان کا مقابلہ ہوتا ہے۔ جب 12مشرک جہنم رسید ہو چکے تو بقیہ بھاگ جاتے ہیں۔ خالد بن ولید مکہ کے گلی کوچوں میں پیش آنے والی ہر رکاوٹ کو روندتے ہوئے صفا پہاڑی پر اللہ کے رسولسے آملتے ہیں۔ اللہ کے رسولکدی کے راستے سے مکہ میں اس طرح داخل ہو رہے ہیں کہ آپ نے اپنا سر مبارک تواضع سے جھکا رکھا ہے۔ اسلامی لشکر کا کسی نے مقابلہ نہیں کیا۔ اللہ کے رسولکی کتنی کامیاب پلاننگ ہے کہ کم سے کم لوگ قتل ہوتے ہیں۔ صرف2 مسلمان جام شہادت نوش کرتے ہیں۔ اللہ کے رسول مہاجرین اور انصار کے ہمراہ کسی خونریزی کے بغیر بیت اللہ شریف میں داخل ہو رہے ہیں۔ حجر اسود کو چومتے ہیں۔ اب بیت اللہ کا طواف ہو رہا ہے۔
اللہ کے رسولکے ہاتھ میں کمان تھی۔ بیت اللہ کے گرد اور چھت پر 360 بت رکھے ہوئے تھے۔ اسی کمان سے ان بتو ں کو ٹھوکر مار رہے ہیں۔ زبان اقدس پر قرآن حکیم کی یہ آیت کریمہ جاری ہے: {جَائَ الْحَقُّ وَزَھَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوقًا} ’’حق آگیا باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والی چیز ہے۔‘‘ یہ آپ کا معجزہ ہے کہ کمان کی ٹھوکر سے بت چہروں کے بل گرتے چلے جارہے ہیں۔پھر آپ کی آواز فضا میں گونجتی ہے: عثمان بن طلحہ کہاں ہے؟ ان کو بلایا گیا۔ فرمایا: جائو کعبہ کی چابی لائو۔ کعبہ کا دروازہ کھولا گیا۔ آپ اندر تشریف لے گئے۔ قارئین کرام! کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ہمراہ کعبہ کے اندر جانے کا اعزاز کس کو ملا ہے؟ اسے کہتے ہیں مساواتِ محمدیؐ، آپ کے ساتھ سیدنا اسامہؓ اور سیدنا بلالؓاندر گئے ہیں۔ ان میں سے ایک تو وہ ہیں جن کے والد غلام رہے تھے اور دوسرے بذات خود غلام رہے ہیں۔
آپنے کعبہ کے اندر شکرانے کے نوافل ادا کئے۔ باہر تشریف لائے تو دیکھا کہ قریش حرم شریف کے صحن میں بیٹھے ہیں۔ سوچ رہے ہیں کہ آپان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں؟۔ اللہ کے رسول حرم شریف کے دونوں دروازوں کو پکڑ کر کھڑے ہیں اور قریش سے خطاب فرما رہے ہیں۔ اللہ کی حمد و ثنا اور اس کی تعریف بیان فرما رہے ہیں: ’’تمام تعریفیں اس مولائے کریم کے لئے ہیںجس اکیلے رب نے اپنے بندے کی مدد کی اوراس اکیلے نے تمام دشمن گروہوں کو شکست فاش سے دو چار کیا۔ قریش کے لوگو! اللہ تعالیٰ نے جاہلیت کی نخوت اور باپ دادا پر فخر کا خاتمہ کردیاہے،تمام لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے ہیں۔‘‘ آپ قریش سے ایک سوال کرتے ہیں: ’’ قریش کے لوگو! تمہارا کیا خیال ہے ،میں تمہارے ساتھ کیسا سلوک کرنے والا ہوں؟۔‘‘ حاضرین پر سناٹا ہے۔ سب لوگ خاموش ہیں۔ سہیل بن عمرو قریش کا مانا ہوا خطیب ہے، اس کی آواز آتی ہے: آپ تو کریم ابن کریم ابن کریم ہیں۔
اللہ کے رسول فرماتے ہیں: ’’آج میں تم سے وہی بات کہنے لگا ہوں جو یوسف ؑنے اپنے بھائیوں سے کہی تھی: آج تم پر کوئی سرزنش نہیں‘جائو تم سب آزاد ہو۔‘‘ سیدنا علیؓ بن ابی طالب کے ہاتھ میں کعبے کی کنجی تھی۔ ان کی اور سیدنا عباسؓ کی خواہش تھی کہ انہیں حجاج کو پانی پلانے کے اعزاز کے ساتھ ساتھ کعبہ کی کلید برداری کا اعزاز بھی بخش دیا جائے مگر اللہ کے رسول فرما رہے ہیں: عثمان بن طلحہ کہاں ہیں؟انہیں بلاؤ۔ وہ آئے تو آپنے ان کے ہاتھ میں کنجی پکڑاتے ہوئے فرمایا: یہ لو اپنی کنجی، آج نیکی اور وفاداری کا دن ہے۔ اس نبی رحمتکی عنایت کو تو دیکھئے، عثمان بن طلحہ کو صرف کنجی نہیں پکڑائی بلکہ قیامت تک آنے والی امت کے لئے ایک حکم بھی جاری فرما دیاکہ یہ کنجی قیامت تک عثمان کے خاندان میں رہے گی، جو اسے ان لوگوں سے چھینے گا وہ ظالم ہو گا۔