Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبر پختونخوا میں رواں برس سیاحوں کی آمد کا نیا ریکارڈ لیکن مشکلات برقرار

نگراں وزیر برائے سیاحت نے کہا ’اندرون و بیرون ملک سے آنے والے ہر سیاح کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔‘ (فائل فوٹو: سکرین گریب)
پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کی حکومت کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سیاحت میں نمایاں اضافے کو ظاہر کرتے ہیں کہ شہریوں کی بڑی تعداد اب سیاحت کے لیے صوبے کے مختلف مقامات کا رُخ کر رہی ہے۔
رواں سال کے ابتدائی نو ماہ کے دوران ملک بھر سے سیاحتی علاقوں کا رُخ کرنے والے سیاحوں کی تعداد ایک کروڑ سے تجاوز کر گئی ہے جو ایک ریکارڈ ہے۔
جنوری کے سرد موسم سے لے کر جولائی کے گرم موسم تک گلیات، مالاکنڈ اور ہزارہ کے سیاحتی مقامات پر سیاحوں کا رش رہا۔
سیاحت کے عالمی دن کی مناسبت سے صوبہ خیبرپختونخوا ٹورازم اتھارٹی نے رواں سیزن کے دوران ملک کے دیگر شہروں سے خیبرپختونخوا آنے والے سیاحوں کی تعداد کے حوالے سے اعداد وشمار جاری کیے ہیں جن کے مطابق جنوری سے ستمبر تک ایک کروڑ 11 لاکھ 20 ہزار 535 سیاحوں نے خیبرپختونخوا کے تفریحی علاقوں کا رُخ کیا جن میں سے بڑی تعداد نے کاغان اور ناران کے پرفضا اور فطری خوبصورتی سے مالامال مقامات کا رُخ کیا جن کی تعداد 35 لاکھ 31 ہزار 976 رہی۔
سیاحت کے تناظر میں دوسرے نمبر پر گلیات سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنا رہا جہاں 34 لاکھ 71 ہزار 788 سیاح سیر سپاٹے کے لیے آئے۔ 
رواں برس کے ابتدائی نو ماہ کے دوران 26 لاکھ 94 ہزار 936 سیاحوں نے مالم جبہ کی سیاحت کی۔ اسی طرح 9 لاکھ 57 ہزار 743 سیاح اپَر دیر جب کہ 4 لاکھ 64 ہزار 383 سیاحوں نے ضلع چترال کی سیاحت کی۔

غیرملکی سیاحوں کی تعداد 

خیبرپختونخواہ کے پرفضا مقامات کی خوبصورتی مقامی سیاحوں کے علاوہ غیر ملکی سیاحوں کو بھی اپنی جانب متوجہ کرنے میں کامیاب رہی۔ خیبرپختونخواہ ٹورازم اتھارٹی کے مطابق رواں سال 3 ہزار 369 غیر ملکی سیاحوں نے پاکستان کا رُخ کیا جن کی ایک بڑی تعدادچترال گئی اور مجموعی طور پ رایک ہزار 265 سیاحوں نے چترال کا رُخ کیا جب کہ اپر چترال میں 641 ، ناران 587 ، مالم جبہ 386 اور اپر دیر میں 282 غیرملکی سیاح گئے۔

سیاحوں کو کیا مشکلات پیش آئیں؟   

خیبرپختونخوا کی سیاحت کو آنے والے سیاحوں کو سفر کے دوران مختلف مشکلات کا سامنا بھی رہا جس کی شکایت ٹورازم ہیلپ لائن کے ذریعے متعلقہ حکام تک پہنچائی گئی۔
سیاحوں کی سب سے زیادہ شکایات سڑکوں کی خستہ حالی سے متعلق تھیں یا پھران کو ٹریفک جام کے مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسی طرح ہوٹل یا ریستورانوں کی جانب سے زیادہ قیمتوں کی وصولی کی شکایات بھی ہیلپ لائن کے ذریعے درج ہوئیں۔
صوبائی اتھارٹی کے ترجمان سعد بن اویس کے مطابق سیاحوں کی شکایات فوری طور پر حل کرنے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو پہنچا دی جاتی ہیں تاکہ بروقت ان کو حل کیا جا سکے۔
 انہوں نے کہا ’سیاحتی مقامات پر ٹورازم پولیس کے اہلکار تعینات ہوتے ہیں جن کی ڈیوٹی ہی سیاحوں کو سہولت فراہم کرنا ہے۔‘
ٹور گائیڈ جلیل احمد نے بتایا کہ ’غیرملکی سیاحوں کے لیے این او سی کا حصول کافی پیچیدہ کر دیا گیا ہے جس کی وجہ سے غیرملکیوں کو ہوٹل میں ٹھہرنے کے لیے اجازت نہیں ملتی۔‘
انہوں نے بتایا ’سیاحوں کو پشاور شہر میں بھی گھومنے کے لیے کچھ علاقوں تک محدود کر دیا گیا ہے حالانکہ سب کے پاس سفری دستاویزات مکمل ہوتی ہیں۔‘ 
ٹور گائیڈ جلیل احمد کے مطابق محکمۂ داخلہ میں اجازت ناموں کی فائلیں پڑی ہوئی ہیں۔ سیاحوں کی سکیورٹی کے لیے ایس او پیز ضرور ہونے چاہییں مگر ان کے طریقۂ کار کو آسان بنایا جائے۔

وزیر سیاحت کا موقف 

خیبرپختونخوا کے نگراں وزیر برائے سیاحت بیرسٹر فیروز جمال نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’صوبے میں امن امان کی صورتحال پر اطمینان کا ثبوت یہاں آنے والے سیاحوں کی بڑی تعداد سے ہوتا ہے۔ اندرون و بیرون ملک سے آنے والے ہر سیاح کو تحفظ فراہم کیا جا رہا ہے۔‘
 انہوں نے مزید کہا، ’ہماری ترجیح غیرملکی سیاحوں کو شمالی علاقوں کی جانب متوجہ کرنا ہے اور اسی مقصد کے لیے سیاحوں کے لیے ایس او پیز بنائے گئے ہیں تاکہ ان کی سکیورٹی یقینی بنائی جا سکے۔‘ 
نگران وزیر سیاحت کا کہنا تھا ’ناران اور سوات میں نئے پکنک سپاٹس بنائے جا رہے ہیں جہاں پر ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جائیں گی۔ سیاحتی مقامات کو جانے والی سڑکوں کی ازسرِ نو تعمیر بھی اولین ترجیح ہے کیونکہ مواصلاتی نظام کو بہتر کیے بنا سیاحت کو فروغ نہیں دیا جا سکتا۔‘
انہوں نے مزید بتایا ’بدھ مت کے آثار قدیمہ کی وجہ سے مذہبی سیاحت کو بھی خاصا فروغ ملا ہے جس کے باعث رواں سال بدھ مت کے پیروکاروں نے ایک بڑی تعداد میں صوبہ خیبرپختونخوا کا رُخ کیا۔‘
خیال رہے کہ گزشتہ سال خیبرپختونخوا میں مجموعی طور پر 88 لاکھ 59 ہزار 636 سیاح ان علاقوں کے قدرتی حسن سے لطف اندوز ہونے یہاں آئے تھے۔

شیئر: