Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کے حلفیہ ویڈیو بیانات: بیانیے کی جنگ جیتنے کی نئی حکمت عملی ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں نے پریس کانفرنس اور ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے عمران خان سے اعلان تعلقی اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی مذمت کی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
9  مئی کے واقعے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں نے پریس کانفرنس اور ٹی وی انٹرویوز کے ذریعے عمران خان سے اعلان تعلقی اور فوجی تنصیبات پر حملوں کی مذمت کی۔
ایسے کئی رہنماؤں کے خلاف پی ٹی آئی نے جوابی بیانات جاری کیے اور کئی پر خاموشی اختیار کی۔ تاہم گذشتہ ہفتے جب پاکستان تحریک انصاف کے سیالکوٹ سے رہنما اور عمران خان کے قریبی ساتھی عثمان ڈار نے اپنی حراست کے بعد ایک ٹی وی انٹرویو میں عمران خان کے خلاف بات کی تو اس کے بعد سے تحریک انصاف کے متعدد روپوش رہنما اپنی ویڈیوز جاری کر کے حلفیہ بیانات دے رہے ہیں کہ عمران خان نے انہیں کبھی تشدد اور قومی تنصیبات پر حملوں کی ہدایات جاری نہیں کیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر اس بارے میں وہ بعد ازاں کوئی اور بیان جاری کرتے ہیں تو وہ زبردستی اور مجبوری کے عالم میں لیا گیا بیان ہو گا۔
اس سلسلے کا سب سے پہلا بیان عثمان ڈار کی والدہ کی طرف سے جاری ہوا جس میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ عثمان ڈار سے گن پوائنٹ پر انٹرویو کروایا گیا ہے اور اب وہ خود میدان میں اتر کے الیکشن لڑیں گی اور دکھائیں گی کہ وہ ’شیر‘  کا کیا حشر کرتی ہیں۔
اس کے بعد پی ٹی آئی کراچی کے سینیئر رہنما فردوس شمیم نقوی، پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان، حماد اظہر، خیبر پختونخوا کے صدر علی امین گنڈا پور، اور مراد سعید سمیت کئی رہنماوں نے اپنے حلفیہ ویڈیو بیان جاری کیے اور یہ کہا کہ اس کے بعد ان کی طرف سے عمران خان کے خلاف دیا جانے والا کوئی بھی بیان جبرا ہو گا۔
تو کیا یہ پی ٹی آئی کی نئی حکمت عملی ہے جس کے ذریعے وہ اپنے خلاف بننے والے بیانیے اور اداروں کی کاروائیوں کو ناکام بنانا چاہتے ہیں؟
اور اگر یہ نئی حکمت عملی ہے تو اس کے پیچھے کون ہے اور اس کا آئیڈیا کہاں سے آیا ہے۔
اس سلسلے میں پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ یہ نئی حکمت عملی پارٹی کے خلاف کیے جانیوالے پروپیگنڈے کے توڑ کی کوششوں کا حصہ ہے اور اس کی منظوری کور کمیٹی نے دی تھی۔
پی ٹی آئی کی کور کمیٹی میں سیکرٹری جنرل عمر ایوب خان کی طرف سے کہا گیا تھا کہ پارٹی کے خلاف پروپیگنڈے کو ناکام بنانے کے لیے گرفتار اور زیر حراست رہنماؤں کے جبراً لیے گیے بیانات اور انٹرویوز کا انتظار کرنے کی بجائے ان رہنماؤں کی طرف سے پہلے ہی ویڈیو بیانات جاری کر دیے جائیں۔ اس سے نہ صرف یہ کہ پروپیگنڈے کا توڑ ہو گا بلکہ جن اراکین کی گرفتاری متوقع ہے ان کی حراست بھی رک جانے کے امکانات ہیں کیونکہ یہ واضح ہو جائے گا کہ پارٹی پالیسی پر ان کے بیانات پہلے ہی آ چکے ہیں اور دباؤ کے تحت آنے والے بیانات کا فائدہ نہیں ہو گا۔
تجزیہ کار ماجد نظامی کے مطابق پی ٹی آئی کی اس نئی حکمت عملی کا تعلق اس کے ابھی تک روپوش رہنماوں کی ممکنہ گرفتاری اور اس کے بعد ان سے حاصل کیے جانے والے بیانات سے ہے۔ ’تحریک انصاف نے اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل کی ہے۔‘
’ان حلفیہ ویڈیوز کا تحریک انصاف کو بہت فائدہ پہنچا ہے۔ انہوں نے عثمان ڈار کے کامران شاہد کو دیے گیے انٹرویو کے بعد بننے والے تازہ ترین بلبلے کو بڑی کامیابی سے پھوڑ دیا ہے۔‘
ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف اس وقت کسی قسم کی لڑائی لڑنے کی بجائے دفاعی پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہے اور وہ کسی بھی طریقے سے انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔

ماجد نظامی سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف اس وقت کسی قسم کی لڑائی لڑنے کی بجائے دفاعی پوزیشن اختیار کیے ہوئے ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

وہ چاہتے ہیں کہ کسی طور انتخابات ہو جائیں، اس کے بعد اس کے نتائج کے تناظر میں اگلی حکمت عملی بنائیں گے۔ فی الحال وہ انتخابات کے انعقاد تک صرف اپنی بقا چاہتے ہیں۔‘
سینئیر صحافی اور کالم نگار ارشاد احمد عارف کے مطابق پی ٹی آئی نے ان حلفیہ ویڈیوز کا سلسلہ عثمان ڈار کے انٹرویو کے بعد بیانیے کی جنگ میں دفاعی پوزیشن پر چلے جانے کے بعد شروع کیا۔
پہلے تحریک انصاف کے جن لوگوں نے ایسے بیان دیے وہ واضح نہیں تھے اور انہوں نے سنی سنائی باتیں کیں۔ عثمان ڈار کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ وہ کور کمیٹی کے رکن ہونے کے ساتھ ساتھ ٹائیگر فورس کے سربراہ بھی تھے اور 9 مئی کے حوالے سے پی ٹی آئی کی یوتھ اور ٹائیگر فورس کا نام لیا جاتا ہے۔‘
اس لیے پی ٹی آئی دفاعی پوزیشن میں چلی گئی اور انہیں یہ حکمت عملی اپنانی پڑی جو دفاعی کے ساتھ ساتھ موجودہ حالات میں جارحانہ بن گئی اور یوں انہوں نے اپنا دفاع ان ویڈیوز کے جارحانہ بیانیے کے ذریعے کیا۔‘ ارشاد احمد عارف کے مطابق یہ ایک سیاسی حکمت عملی ہے۔

شیئر: